میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عام انتخابات کے سال میں اپوزیشن جماعتوں کی حکمت عملی کیا ہو گی ؟

عام انتخابات کے سال میں اپوزیشن جماعتوں کی حکمت عملی کیا ہو گی ؟

منتظم
منگل, ۲ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ وہ حکومت کو چوبیس گھنٹے کی مْہلت دینے کے لیے بھی تیار نہیں تھے لیکن اگر طاہر القادری کی آل پارٹیز کانفرنس نے جس میں بارہ جماعتیں شریک ہوئیں، پنجاب حکومت کو آٹھ دن کی مْہلت دے دی تو پھر اِسے کانفرنس کی ناکامی کہا جائیگا یا کامیابی؟ شیخ رشید نے تو کانفرنس میں اسمبلیوں سے استعفیٰ کی تجویز بھی پیش کر دی تھی لیکن یہ تجویز نہیں مانی گئی، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم تینوں نے استعفوں کی مخالفت کی۔ دیکھا جائے تو حزبِ اختلاف کی یہی تین جماعتیں ہیں جن کی قومی اسمبلی میں قابلِ ذکر نشستیں ہیں۔ شیخ رشید نے شرط یہ رکھ دی کہ ساری جماعتیں مستعفی ہوں تو وہ بھی استعفا دے دیں گے حالانکہ اْن کی پیش کش یہ ہونی چاہئے تھی کہ میں اپنی نشست سے مْستعفی ہوتا ہوں، باقی جماعتیں بھی فیصلہ کر لیں لیکن شیخ رشید کو اس سلسلے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ جب ڈیڈلائن ختم ہوگی تو کیا ہوگا اور کِس قِسم کا احتجاجی موڈ اپنایا جائیگا۔ لاہور میں دھرنے کی تجویز بھی آئی ہے ۔ ڈیڈ لائن میں جو بنیادی مطالبہ ہے وہ تو وزیراعلیٰ اور وزیر قانون کے استعفوں کا ہے اور اگر 7جنوری تک استعفیٰ نہ آئے تو اگلا لائحہ عمل طے کیا جائیگا۔ دس نکاتی مطالبات تو اس ایک مطالبے کو مضبوط بنانے کے لیے رکھے گئے ہیں۔

رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ اْنہوں نے اور وزیراعلیٰ نے جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کرایا تھا اور وہ قسم کھانے کو تیار ہیں کہ واقعہ کِسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اے پی سی کے مطالبات کے حق میں صوبائی اسمبلیوں سے قراردادیں منظور کرائی جائیں۔ عملی طور پر صورتِ حال یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں حْکمران جماعت کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور کوئی قرارداد اس کی حمایت کے بغیر منظور نہیں ہو سکتی، اس لیے پنجاب کی حد تک تو یہ باب بند ہی سمجھا جائے، اسی طرح بلوچستان میں بھی مْسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے، بْہت سی حلیف جماعتیں مْسلم لیگ (ن) کے ساتھ شریک حکومت ہیں، اس لیے وہاں بھی کوئی قرارداد منظور نہیں ہو سکتی، البتہ سندھ میں پیپلزپارٹی چاہے تو قرارداد آسانی سے منظور ہو سکتی ہے۔ اِسی طرح خیبر پختونخوا میں بھی جماعتِ اسلامی کے تعاون سے قرارداد منظور ہو سکتی ہے، اکیلی تحریک انصاف اگر چاہے بھی تو قرارداد کی منظوری کا امکان نہیں، گلگت بلتستان اسمبلی میں بھی مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے، یہاں بھی کوئی قرارداد اس کی حمایت کے بغیر منظور نہیں ہو سکتی۔

سینیٹ میں البتہ مقابلہ سخت ہو سکتا ہے، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف یہاں بھی ایم کیو ایم اور دوسری جماعتوں کے تعاون کے بغیر قرارداد منظور کرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ان قراردادوں کے ذریعے مطالبات کے حق میں دباؤ بڑھانا مقصود ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا استعفوں کا مطالبہ پورا ہوگا، عمومی خیال تو یہی ہے کہ ایسا نہیں ہوگا پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر عوامی تحریک نے احتجاج شروع کیا تو کیا پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف مل کر اس کا ساتھ دیں گی؟ یہ سوال ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ دونوں جماعتیں مِلکر ڈاکٹر طاہر القادری کی حمایت میں شاید کھڑی نہ ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام انتخابات میں اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا جس میں دونوں جماعتیں حریف ہوں گی۔ عمران خان تو اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھ کر بات کرتے ہیں اِس لیے اْنہیں ایسے انتظامات کرنے ہیں جن کی بناء پر وہ وزیراعظم بن سکیں اور ان میں سب سے بڑا معاملہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنا ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری کا الیکشن مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ جب بھی اس میدان میں اْترے انہیں شکست ہوئی۔ کم از کم دو مرتبہ وہ مایوس ہو کر انتخابی میدان سے ہی باہر ہوگئے۔ دھرنے کے بعد انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ دوبارہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ اْنہوں نے ایک دو ضمنی انتخابات لڑے بھی، لیکن نتیجہ پہلے سے مختلف نہ تھا۔ کانفرنس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ کوئی جماعت اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے لیے تیار نہیں، حالانکہ اگر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی چاہیں تو استعفوں سے آگے بڑھ کر کے پی کے اور سندھ اسمبلیاں توڑی بھی جا سکتی ہیں۔ ایسی صورت میں وفاقی حکومت دباؤ محسوس کرے گی لیکن جن پارٹیوں کے ارکان استعفا دینے پر اتفاقِ رائے نہ کر سکیں وہ اسمبلیاں توڑنے پر کیسے تیار ہوں گی۔ 2018ء کا سال کئی لحاظ سے اہم ہے۔ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہونے والے ہیں اگر کوئی غیر معمولی بات نہ ہو گئی تو یہ انتخابات مارچ میں ہو سکتے ہیں۔ اے پی سی کا سارا زور پنجاب کی قیادت کے استعفیٰ پر ہے، فی الحال وفاقی حکومت کو ’’نظرانداز‘‘ کر دیا گیا ہے اِس لیے محسوس یوں ہوتا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات وقت پر ہو جائیں گے۔

اس سے پہلے 9 جنوری کو چکوال کے حلقہ پی پی 20 میں صوبائی اسمبلی کا ضمنی الیکشن ہو رہا ہے اور فروری کی 12 تاریخ کو این اے 154 کا ضمنی الیکشن ہوگا، دونوں انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا براہ راست مقابلہ ہے۔ چکوال میں تو پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کی حمایت کر دی ہے، این اے 154 میں بھی پیپلزپارٹی کہیں نہیں ہے۔ خیال ہے کہ دونوں جماعتیں اب اپنی انتخابی حکمت عملی پر توجہ مرکوز رکھیں گی، اگر انہیں طاہر القادری کی تحریک کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہ آئی تو وہ اس تحریک میں زیادہ سرگرمی ظاہر نہیں کریں گی اور اپنی تمام تر حکمتِ عملی الیکشن جیتنے پر مرکوز رکھیں گی۔ (تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں