خون خرابے سے بچائو اور جج صاحب کانقطہ نظر
شیئر کریں
جس انداز میں اتنے نازک حالات میں جسٹس شوکت صدیقی نے پاک فوج کے خلاف ہرزہ رائی کی ہے یقینی طور پر یہ پاکستان کی خدمت نہیں ہے ۔ اپنے الفاظ پر خود ہی غور فرمائیں۔ یہ وہ جج صاحب ہیں جنہوں نے ممتاز قادی کو پھانسی کی سزا بھی دی تھی۔ یہ چاہتے تھے کہ طاقت کے زور پر دھرنا ختم کیوں نہیں ہوا۔ مزید لاشین کیوں نہیں گریں فوج نے امن کیوں کروایا۔ جسٹس صدیقی اِس وقت حکمرانوں کی زبان بول رہے ہیں۔نہ جانے جناب شوکت صدیقی نے کس طرح کی بیان بازی شروع کردی ہے، اُن کے خلاف تو پہلے ہی جوڈیشل کونسل میں ناہلی کا ریفرنس ہے۔ امید واثق ہے کہ وہ اپنی اِس ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔جس طرح سے اُنھوں نے ختم نبوت ﷺ کے لیے قربانی دینے ولے مسلمانوں کے خلاف الفاظ ادا کیے ہیں ۔ اور جس انداز میں اپنی فوج کو بُرا بھلا کہا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ شاید یہ کسی اور ملک کی عدالت ہے جہاں پاکستانی فوج کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الفا ظ کا نوٹس لیں۔کسی طرح بھی عقل و دانش جناب جسٹس صاحب کے الفاظ کی غرض و غایت تسلیم کرنے سے عاری ہے۔
جناب جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں مظاہرین کی جانب سے اسلحہ کے استعمال، آنسو گیس کے شیل اورگیس فائر کرنے والی گنز کے حوالے سے اسلام آباد انتظامیہ اور انٹیلی جنس بیورو سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ عدالت نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں فوج کے ثالثی کے کردار پروفاق سے جواب طلب کرتے ہوئے مشیر وزیر اعظم بیرسٹر ظفراللہ کی سربراہی میں کمیٹی بنا کر ختم نبوت کی شقوں میں ردو بدل کے ذمے داروں کے خلاف انکوائری مکمل کرکے دس دن میں رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے انٹیلی جنس بیورو سے استفسار کیا ہے کہ بتائیں دھرنے والوں کے پاس اسلحہ کہاں سے پہنچا اور پولیس جب فیض آباد خالی کرانے کے قریب تھی تو دھرنا مظاہرین کی مدد کس نے کی ہے۔
عدالت نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدے میں فوج کی ثالثی پر حیرت اور دھرنا مظاہرین کو سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف گالیاں دینے پر معاہدے میں معافی کی شق شامل نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دئیے ہیں کہ فوج نے قانون توڑنے اور قانون نافذ کرنیوالوں میں معاہدہ کرایا، حمزہ کیمپ کی جگہ یہاں جی ایچ کیو ہوتا تو کیا یہاں دھرنا ہوتا؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دھرنے کے پیچھے یہ لوگ ہیں، کیا آئین کے تحت آرمی چیف ’ایگزیکٹو‘ سے الگ ہیں؟ آئین کے مطابق ایگزیکٹوز کا حکم ماننے کی بجائے فوج ثالث کیسے بن سکتی ہے؟ فوج کا میجر جنرل کیسے ثالث بنا؟ سازش کے تحت اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کو ناکام بنایا گیا، کب تک قوم کے ساتھ یہ تماشا چلتا رہے گا؟ اب تک کیا گیا نقصان ریاست کیوں برداشت کرے؟ ردالفساد اور ضرب عضب کہاں گئے؟ انوشہ رحمن کو بچانے کے لیے زاہد حامد کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔
ختم نبوت کی شقوں میں ترمیم کا ڈرافٹ کس نے تیار کیا؟ یہ تاثر دیا گیا کہ ہرمرض کی دوا فوج ہے، اگر بیرونی جارحیت ہوئی تو فوج کے لیے اپنا خون بھی دیں گے، 1965 کی جنگ میں ہم نے جھولی پھیلا کر افواج کے لیے چندے جمع کیے، اب بھی ملک کو کوئی خطرہ ہوا تو افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہوں گے لیکن فوج کا یہ کردار ہمیں قبول نہیں ہے، فوج اپنا کردار آئینی حدود میں ادا کرے، جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ ریاست کی بندوق واپس کر کے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئیں، جانتا ہوں ان باتوں کے بعد میری زندگی کی بھی اب کوئی ضمانت نہیں رہی ہے میں ماردیا جاوں گا یاپھر لاپتہ کردیا جاوں گا۔، عدلیہ میں اب جسٹس (ر) منیر کے پیروکار نہیں رہے، ایجنسیوں نے دھرنے کے ذریعے وفاقی دارالخلافہ کو بند کرنے کی تیسری کوشش کی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے طلب کر لیا ہے جبکہ انٹیلی جنس بیورو سے فوج کے اعلیٰ افسر کی ثاقب نامی شخص کو دھرنے کے بارے میں فوج کا نکتہ نظر بیان کرنے کی وائرل ہونیوالی ویڈیو بارے رپورٹ بھی مانگ لی ہے۔ عدالت نے حکومت کو مسلح افواج کے آئینی اور بطور ثالث کردار کے حوالے سے عدالت کو مطمئن کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت جاری کی ہے کہ حکومت اور اسلام آباد انتظامیہ دھرنا مظاہرین کو پریڈ گراونڈ منتقل کریں اور ناکامی کی صورت میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کی دفعہ 4 اور 5 کے تحت فوج کو بلایا جائے۔
عدالت نے وفاقی وزیر داخلہ کی حاضری سے متعلق استفسار کیا جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر داخلہ رات بھر جاگتے رہے اس لیے عدالت میں پیش نہیں ہو سکے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ان سے استفسار کیا کہ وزیر داخلہ رات بھر جاگ کر کیا کرتے رہے ہیں؟ بعد ازاں عدالت نے وزیر داخلہ کو طلب کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی۔ دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وزیر داخلہ احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدہ ہو گیا ہے۔ عدالت کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ معاہدے کی نقل پاس نہیں ہے۔ اس پر چیف کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ ان کے پاس معاہدے کی نقل موبائل فون میں موجود ہے۔ عدالتی حکم پر چیف کمشنر نے معاہدہ پڑھ کر سنایا اور بتایا کہ معاہدہ طے پاگیاہے، ہائیکورٹ کے حکم پر عمل ہو جائے گا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدالت نے معاہدے کا نہیں فیض آباد کو مظاہرین سے خالی کرانے کا حکم دیا تھا۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہاکہ پریس کانفرنس ہونے والی ہے، دھرنا ختم اور ملک بھر میں مظاہرے ختم ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلکی بنیادوں پر تقسیم کر کے مسلمانوں کے گھروں پر حملے کیے جا رہے تھے اور ملک میں فساد کھڑا کیا جا رہا تھا۔
(جاری ہے)