میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دہشت گردی کےخلاف جنگ۔جنرل(ر) راحیل نے کیا کیا ،کیا رہ گیا

دہشت گردی کےخلاف جنگ۔جنرل(ر) راحیل نے کیا کیا ،کیا رہ گیا

منتظم
جمعرات, ۱ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

syed-amir-najeeb

سید عامر نجیب
رخصتیکے وقت کے خیالات میں بناوٹ اور حقائق کے منافی ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں ۔ اس بات کو اہمیت دی جانی چاہئے کہ گذشتہ تین سالوں سے اندرونی اور بیرونی محاذوں پر ملکی سلامتی کے لئے برسر پیکار فوج کا سربراہ کرپشن اور انتہا پسندی کو ملک کے لئے بڑے خطرات کے طور پر پیش کر کے رخصت ہو رہا ہے ۔ جنرل (ر) راحیل شریف نے سکبدوشی کے موقع پر جو تقریر کی وہ یقیناً انکے تجربات کا نچوڑ ہو گی ۔ فوجی کمان کی تبدیلی کی پُر وقار تقریب کے موقع پر اپنے خطاب میں سابق آرمی چیف نے کہا کہ ” اندرونی اور بیرونی خطرات سے نبٹنے کے لئے کرپشن اور انتہا پسندی کا خاتمہ ضروری ہے ۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ کر تاریخ کے دھارے کو موڑا اور اس خطے بلخصوص پاکستانی قوم کو امن کی ایک نئی امید دی “ ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ” سیکیورٹی کے پیچیدہ حالات اور درپیش چیلنجز ابھی ختم نہیں ہوئے “ جنرل راحیل نے قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد یقینی بنانے پر بھی زور دیا ۔
جنرل (ر) راحیل شریف نے اپنے حقیقت پسندانہ خطاب میں اپنی کارکردگی کا اظہار اور اپنی کامیابیوں کا ذکر بھی کیا لیکن فوج کی نئی قیادت پر یہ واضح کردیا کہ ملکی سلامتی کے مسائل پیچیدہ ہیں اور اس حوالے سے چیلنجز ابھی ختم نہیں ہوئے ۔ جنرل راحیل نے اپنے دور میں سول قیادت کی مشاورت سے بہت اہم فیصلے کئے نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ملکی سالمیت کو لاحق خطرات کا گراف خطرناک حد سے نیچے لے کر آئے، ملک کی معاشی شہہ رگ کراچی میں قیام امن کے معاملے میں 60 فیصد سے زائد کامیابی حاصل کی ۔ پاکستانیوں کی مایوسی میں کمی کا سبب بنے ۔ بلوچستان اور فاٹا کو دہشت گردوں اور غداروں سے پاک کرنے میں بھی انھیں زبردست کامیابیاں حاصل ہوئیں ۔ پاکستان کی معاشی ترقی و خوشحالی کا ممکنہ طور پر سبب بننے والے سی پیک منصوبے پر کام کا آغاز ہونا پاک آرمی کی ضمانت کے بغیر شاید ممکن نہ ہوتا ، جنرل راحیل نے اس منصوبے کے لئے ساز گار حالات فراہم کرنے میں ہر ممکن کوشش کی ۔ جنرل راحیل کا ایک بڑا کارنامہ یہ رہا کہ انھوں نے پاک آرمی کا مورال بلند کیا اور پاکستانی عوام کا آرمی پر اعتمادنہ صرف بحال کیا بلکہ بڑھایا ان سے پہلے میڈیا میں پاک آرمی کو متنازعہ بنانے اس کا امیج خراب کرنے کی مہم جاری تھی اور ظاہر ہے یہ ملک دشمنی پر مبنی تھی ۔ اب جبکہ جنرل راحیل نے کمان جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد کردی ہے تو انھیں ورثے میں ایسی فوج دے کر جا رہے ہیں عوام میں جس کا اعتماد بحال ہے اور مقبولیت قابل اطمینان حد سے زیادہ ہے ۔ اندرونی اور بیرونی محاذوں پر سرگرم اور فعال ہے اور فوجیوں کا مورال بلند ہے ۔ جنرل راحیل نے جب فوج کی کمان سنبھالی تھی انھیں وراثت میں اتنا کچھ نہیں ملا تھا ۔
جنرل(ر) راحیل شریف کے دور میں فیصلہ سازی میں ملکی مفادات کو اولیت دی گئی اور اس حوالے سے سیاسی دباﺅ کو قبول کرنے سے گرہیز کی پالیسی اپنانے کی کوشش کی گئی بلخصوص کراچی جو سیاسی و مذہبی مافیاز اور جرائم پیشہ عناصر نے یرغمال بنا رکھا تھا ۔ سیاسی دباﺅ میں آئے بغیر کئے جانے والے اقدامات ہی کراچی کی رونقوں کی بحالی کا سبب بنے ۔جنرل راحیل کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے سیاسی حکومتوں کو بائی پاس کئے بغیر ملکی مفاد میں سیکیورٹی کے حساس اور پیچیدہ معاملات کو درست کرنے کے لئے اقدامات کئے ۔ کراچی کے شہری جنرل (ر) راحیل شریف اور ان کی قیادت میں کام کرنے والے تمام سیکیورٹی اداروں کے شکر گزار نظر آتے ہیں جنھیں جبر اور تشدد سے کسی قدر نجات ملی ہے ۔
جنرل (ر) راحیل شریف کا ایک کارنامہ ملکی تحفظ کی پالیسیوں کی درستگی ہے ان سے پہلے سوچنے کا انداز یہ تھا کہ دہشت گردوں کا مقابلہ میدان میں کیا جائے انکا قلعہ قمع کیا جائے ۔ جنرل راحیل کے دور میں ملکی سیاست اور میڈیا میں سہولت کاروں کی اصطلاح معروف ہوئی انھوں نے اپنی پالیسیوں میں صرف دہشت گردوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ دہشت گردی کے سہولت کار وں پر بھی ہاتھ ڈالنے کے عزم کا اظہار کیا ۔ جنرل (ر) راحیل نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیاسی ومذہبی جماعتوں کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کو بھی اہمیت دی اور اسے ملکی سیکیورٹی کے مسئلے کے طور پر پیش کیا ، مختلف جماعتوں کے تمام مسلح ونگز کے خلاف بلا امتیاز کاروائیاں کیں ۔ جنرل (ر) راحیل کے اقدامات سے اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ انھوں نے پاکستان میں ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی کے بیرونی عوامل کو بھی سمجھا اور ملکی سلامتی کی پالیسیاں بناتے ہوئے اسے پیش نظر رکھا ۔ بلوچستان میں بغاوت کی تحریک کے پیچھے بھارت کا ہاتھ بے نقاب کیا افغانستان اور ایران کے حوالے سے تحفظات کو اہمیت دی اور احتیاط سے کام لیا ۔ امریکا کے ہر جائز و ناجائز مطالبے ماننے کے بجائے ملکی مفادات کی روشنی میں فیصلے کئے گئے جسکی وجہ سے تعلقات میں کشیدگی بھی محسوس کی گئی ۔
جنرل (ر) راحیل شریف نے مجموعی طر پر اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں بڑی مہارت اور دیانتداری سے نبھائی ہیں ان کی فعالیت اور سرگرمی مثالی تھی انھوں نے عید کی خوشیاں بھی اپنے گھروں سے دور محاذوں پر ڈیوٹی دینے والے جوانوں کے ساتھ منائیں اور غم کے مواقعوں پر بھی وہ گھر نہیں بیٹھے ، اپنی والدہ کی وفات کے موقع پر استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور اس غم کو بڑی بردباری کے ساتھ سہہ گئے لیکن اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں چند گھنٹوں سے زیادہ تعطل نہیں آنے دیا ۔ انھوں نے آنے والوں کے لئے انتہائی روشن مثالیں قائم کیں ۔
جنرل (ر) راحیل شریف کا سفر تمام ہو گیا لیکن دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ ابھی ادھوری ہے ۔ اس جنگ کے کئی محاذ گرم ہیں لیکن جنرل (ر) راحیل کے دور میں کمی یہ رہی کہ اس جنگ کی فکری نوعیت کا پوری طرح ادراک نہیں کیا گیا پاکستانی معاشرہ عدم برداشت ، انتہا پسندی ، فرقہ واریت اور تعصبات کا پوری طرح شکار ہے یہ ماحول دہشت گردی اور دہشت گردوں کے لئے انتہائی سازگار ہے ۔ اور جب تک ماحول سازگار رہے گا دہشت گرد بنتے رہیں گے ۔ برداشت ، رواداری ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، باہمی اخوت اور محبتوں کا فروغ یہ سب ایک فکری ضرب عضب کا تقاضہ کرتا ہے اس مقصد کے لئے مساجد و مدارس سے لے کر تمام تعلیمی اداروں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا تک اصلاحات لانے کی ضرورت ہے ۔ ان اسباب کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو فرقہ واریت اور نسلی و لسانی تعصبات بڑھانے کا سبب بنتے ہیں ۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں اور مختلف فرقوں کے کردار کا جائزہ لے کر ان کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ میڈیا میں بیٹھ کر جو لوگ بیرونی ایجنڈے چلا رہے ہیں ، دوسروں کی زبان بول رہے ہیں ، عدم برداشت ، نفرت ، تعصبات اور افرا تفری بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں انکے گرد بھی شکنجہ کسنے کی ضرورت ہے ۔ مذہب اور دانشوری کے لبادے میں تعصبات کا کاروبار کرنے والوں کی آزادی پر بھی قدغن لگانے کی ضرورت ہے ۔ ان لبرل انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کو بھی قومی مفاد کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے جن کی سرگرمیاں اسلامی انتہا پسندی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں ۔ ملکی میڈیا کو ملکی مفاد اور اسلامی اقدار کے منافی چلنے سے باز رکھنے کی ضرورت ہے ۔ جنرل (ر) راحیل شریف ©!تم نے درست کہا ملکی سلامتی کے چیلنجز بڑے پیچیدہ ہیں اور کرپشن اور انتہا پسندی ملک کے لئے بڑے خطرات ہیں اللہ کرے تمہارے پیش رو مسائل کی نوعیت کو تم سے بہتر سمجھ سکیں اور اس کے حل کے لئے تم سے زیادہ دیانتداری اور جوش و جذبے سے کام کریں ۔ تم نے اپنی کارکردگی سے قوم میں امید پیدا کی فوج سے ہماری توقعات بڑھ گئیں اللہ نئی قیادت کو ان توقعات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے ( آمین )
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں