اب 27 ویں ترمیم کا شوشا سامنے آگیا!
شیئر کریں
کسی بھی ریاست کے سیاسی نظام کی کامیابی کا انحصاراس کے اداروں کی آزادانہ کام کرنے کی اہلیت اور مواقع ملنے پر ہے۔ان اداروں میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ نمایاں ہیں۔ جمہوری ریاست میں ان اداروں کی آئینی حدودکا تعین اور توازن موجود ہوتا ہے۔ جب تک یہ ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں ریاست کا نظام بحسن خوبی چلتا رہتا ہے۔بصورت دیگر کسی ادارے کی دیگر اداروں میں مداخلت یا غلبہ پانے کی خواہش یا کوشش سے آئینی توازن بگڑ جاتا ہے اور اس کے اثرات پورے ریاستی نظام پر مرتب ہوتے ہیں۔
پاکستان کا موجودہ سیاسی، انتظامی اور عدالتی بحران اسی عدم توازن کا نتیجہ ہے جس سے ریاستی نظام کی شکست و ریخت واضح ہے۔ ارباب حکومت اور ان کے پشت پناہوں کو دراصل یہ یقین ہوگیاہے کہ اب ان کا اقتدار پر قائم رہنا مشکل ہی نہین بلکہ ناممکن ہوتا جارہا ہے اور انھیں وقت سے بہت پہلے اپنا بستر لپیٹنا پڑے گا، اسی صورت حال سے بچنے کیلئے انھوں نے جسٹس منصور علی کا راستہ روکنے کیلئے 26 آئینی ترمیم منظور کرائی اور جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے یعنی انھیں ان کے جائز حق سے محروم کرنے میں کامیاب ہوگئے ،لیکن اس کے فوری بعد انھیں احساس ہوگیا کہ انھوں نے آئینی ترمیم کے ذریعہ جسٹس منصور علی کا راستہ تو روک دیا لیکن راستہ ان کیلئے ہموار پھر بھی نہیں ہوا اور ان کے سرپر تلوار بدستور لٹکی ہوئی ہے ،لہٰذا اب اس تلوار کو ہٹانے کیلئے حکومت نے اپنی ڈگمگاتی ہوئی کرسی میں ایک اور ٹیکن لگانے کا فیصلہ کیاہے اور اب 27 ویں ترمیم کا شوشہ سامنے آ گیا ہے۔
پارلیمنٹ کے ذریعے ایک متنازع آئینی ترمیم منظور کروانے کے ایک ہفتے بعد ہی یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ حکمران اتحاد آئین کو مسخ کرنے کے ایک اور منصوبے پر غور کر رہا ہے۔ایک اور تبدیلی جسے ‘27ویں ترمیم’ کا نام دیا دیا جارہا ہے،26 آئینی ترمیم کی طرح اس کی تفصیلات بھی مخفی رکھی گئی ہیں اور فی الحال سامنے نہیں آئی ہیں لیکن گمان یہی ہے کہ متوقع تبدیلی سے حکومت کا عدلیہ پر کنٹرول اور زیادہ مضبوط ہو جائے گا اور حکومت کو فوجی عدالتین قائم کرکے اپنے مخالفین کو طویل المیعاد سزائیں دلوانے کا موقع مل جائے گا۔اطلاعات یہی ہیں کہ اس نئی ترمیم میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق شقیں بھی شامل کی گئی ہیں جنہیں 26ویں ترمیم سے خارج کردیا گیا تھا۔ حکمران اتحاد آئین میں مزید تبدیلیاں کرنا چاہتا تھا لیکن اب وہ اسے منظور کروانے کی جلدی میں نظر آتے ہیں۔ اس عجلت کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہی لگتی ہے کہ 26ویں ترمیم منظور کروانے کے باوجود حکومت عدالتِ عظمیٰ کا مکمل طور پر کنٹرول حاصل نہیں کرسکی ہے۔ اسی دوران حکمران اتحاد سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر 23 ججز کرنے کا نیا قانون لانے کی بھی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اس مقصد کا محرک واضح ہے۔ اس مرحلے پر 6 ججز کے اضافے کا مطلب یہ نہیں کہ زیرِالتوا مقدمات کا بوجھ کم ہوگا، جیسا کہ حکومت دعویٰ کررہی ہے۔ اس کے بجائے لگتا یہ ہے حکومت کو یہ خواہش زیادہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اپنے پسندیدہ ججز کا اضافہ کریں۔ یہ سب نئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد زیادہ آسان ہوگیا ہے جس میں اراکین پارلیمنٹ کا غلبہ ہے۔
نئے ججز کی تقرری کیسے ہوتی ہے، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔اس نئی پیش رفت کا وقت بھی اہم ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ عدلیہ کو مکمل طور پر ایگزیکٹو کے ماتحت کرنے کی کوشش ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جس کے نہ صرف عدالتی نظام پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس سے جمہوری عمل بھی متاثر ہوگا جو حکومت کی مختلف شاخوں کے درمیان طاقت کے توازن پر منحصر ہے۔اگرچہ 26ویں ترمیم نے جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روک دیا ہو لیکن حکومت کو یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ نئے چیف جسٹس حکومت کے احکامات پر چلیں گے۔ نئے چیف جسٹس نے دو اہم فیصلے کیے ہیں جن میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل کیا اور انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کا بھی رکن بنایا۔ ان کے ان فیصلوں سے ارباب حکومت یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے حکومتی گیم پلان کو سبوتاژ کردیاگیا ہے۔یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا یہ سب کچھ نظریہء ضرورت کے تحت ہو رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ایک متفقہ آئین کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی کوئی نہیں ہوسکتی۔ سوال تو اٹھ رہے ہیں کہ جب 26ویں ترمیم کے لئے پورا زور لگایا جا رہا تھا، بھانت بھانت کے بیانات دیئے جا رہے تھے تو اس بات پر غور کیوں نہیں کیا گیا کہ کچھ سامان رہ تو نہیں گیا جسے ترمیم میں ڈالنا ضروری ہو۔26ویں ترمیم کا تو ماجرا ہی سب سے الگ تھا۔ آخر تک کسی کو معلوم ہی نہیں تھا، ڈرافٹ کیا ہے، کس کے پاس ہے، مختلف ڈرافٹ اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے اور کوئی نہیں جانتا تھا ان میں اصلی اور حتمی کون سا ہے؟ جب آئینی ترامیم اس انداز سے ہوں گی تو یہی ہوگا کہ اگلے اسٹیشن پر جا کر پتہ چلے گا سامان میں کچھ اہم چیزیں تو رہ ہی گئیں۔
اب یہ 27ویں ترمیم کیا گُل کھلانے والی ہے، اس کا تو پتہ نہیں مگر سوال یہ ہے اس ترمیم کے بعدکیا ترامیم کا سلسلہ رک جائے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوگاکہ 27کے بعد 28اور 28کے بعد29ویں ترمیم کرنا پڑے گی اپوزیشن کے دعوے ہیں کہ اپنی مرضی کا چیف جسٹس لانے کے باوجود موجودہ حکومت چیف جسٹس کے ابتدائی ایک دو احکامات سے مطمئن نہیں۔ خاص طورپر پریکٹس اینڈ پروسیجرل کمیٹی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی واپسی گویا خطرے کی گھنٹی ہے اگرچہ 27ویں مجوزہ ترمیم کو نام یہ دیا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعہ صوبوں کی خودمختاری کو یقینی بنایا جائے گا۔ حالانکہ 18ویں ترمیم میں صوبوں کو جتنی خود مختاری دی گئی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی ماہرین قانون کا کہناہے اب جو ترمیم لائی جائے گی اس میں پریکٹس اینڈ پروسیجرل کمیٹی کے ارکان کی تعداد بڑھا دی جائے گی۔3 کی بجائے۵ ہو سکتے ہیں، اسی طرح جو2سینئر جج چیف جسٹس کے ساتھ بیٹھے ہیں انہیں کارنر کرنے میں آسانی رہے گی۔ گویا چیف جسٹس کو حکومتی شخصیات اپنا سمجھ رہی ہیں اور ان کے ساتھ دو من پسند ججز بٹھاکر مرضی کے بنچ بنوانا چاہتی ہیں۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ ترمیم 26ویں ہو یا 27ویں معاملہ صرف سپریم کورٹ پر قابو پانے کا ہے۔ آئینی ترامیم کے حوالے سے عالمی سطح پر جو چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں اور جس طرح کا ردعمل آ رہا ہے، اس سے نظریں چرا لیں تو اور بات ہے وگرنہ جس انداز میں سب کیا جا رہا ہے اس پر اعتراضات اٹھ رہے ہیں اور پاکستان میں عدلیہ کو بے اختیار کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ کہنا بہت آسان ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے معاملات میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرے گا تاہم ہر ملک کے بارے میں عالمی رائے عامہ کی کوئی نہ کوئی اہمیت ضرور ہوتی ہے۔ آئین میں ترمیم کوئی انہونی بات نہیں لیکن اس کے لئے جو راستہ اختیار کیا جاتا ہے وہ جمہوری آزادیوں کی نفی کا تاثر دیتا ہے۔ اگر حکومت اور اس کے اتحادی 27ویں ترمیم لانا چاہتے ہیں تو بے شک لائیں۔ تاہم اس کا مسودہ عوام کے لئے پہلے مشتہر ہونا چاہیے۔ چوری چھپے کا راستہ اس لئے بھی مناسب نہیں کہ پھر ایسے بہت سے خلا رہ جاتے ہیں جنہیں پُر کرنے کے لئے ایک اور ترمیم لانا پڑتی ہے، ترمیم لانے کی گنتی کو روکنے کی ضرورت ہے وگرنہ یہ سب کچھ ایک کھیل بن جائے گا۔اب سوال یہ ہے 27ویں ترمیم کے لئے کیا وہی آنکھ مچولی شروع ہو گی جو 26ویں کے وقت رہی۔ وہی بندے توڑنا، بندے اٹھانا، عین وقت پر ایوان میں لانا، آئینی ترمیم کو کچھ ممبران کے لئے اربوں کی کمائی کا ذریعہ بنانا، سارے ملک کے معاملات اور حکومتی کاموں کو روک کر ایک طرف لگ جانا۔ حکومت کو سوچنا چاہئے کہ پہلے ہی ملک دو ماہ سے اسی ترمیم کے چکر میں تعطل کا شکار ہے۔ فیصلے ہو رہے ہیں اور نہ عوام کے مسائل حل کرنے پر کوئی توجہ دی جا رہی ہے اسی 1973ء کے آئین کی تاریخ بتا رہی ہے کہ ایک ترمیم کے چند دنوں بعد دوسری ترمیم لانے کی روایت تو کبھی رہی نہیں ایک وقت تو ایسا بھی تھا کہ کئی کئی سال ترمیم کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔ شاید وہ پارلیمنٹیرین اتنے ذہین نہیں تھے، جتنے آج شہبازشریف اور بلاول زرداری ہیں۔
رہی بات مولانا فضل الرحمن کی تو کوئی ترمیم ان کی حمایت کے بغیر نہیں ہوتی اور یہ بھی سچ ہے وہ عین عصر کے وقت بھی روزہ توڑ دیتے ہیں۔ اب بھی انہوں نے کہا کسی صورت 27ویں ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے، اب اگلے کچھ دنوں تک ان کا گھر مرجع خلائق بن جائے گا۔ ایک آئے گا دوسرا جائے گا۔ یہ ڈرامہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ایوان میں ترمیم پیش کرنے کی گھڑی نہیں آجاتی، پھر مولانا یہ ارشاد فرمائیں گے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ترمیم کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے سیاست کے منہ سے زہریلے دانت نکالنے کا جملہ پھر دہرائیں ۔ حکمران اتحاد کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ آیا وہ ایسا آئینی بینچ تشکیل دے پائیں گے جس کی انہیں خواہش ہے۔ حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ نے کہا کہ چیف جسٹس کو آئینی بینچ کی سربراہی کرنی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو اس بینچ کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ بعض مبصرین کے نزدیک یہ بیان عدالتی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔بہ ظاہر حکومت کو یہ توقع تھی کہ ان کے اقدام سے 2 ججز سائیڈ لائن ہوجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایک کھرے جج کے طور پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اسکرپٹ پر نہیں چلیں گے۔ رواں ہفتے فل کورٹ اجلاس کے بعد سامنے آنے والا فیصلہ سپریم کورٹ کی سمت کو واضح کررہاہے۔ جسٹس یحیٰ آفریدی واضح کرچکے ہیں کہ اس وقت تقسیم شدہ عدالت کو متحد کرنا اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو بہتر بنانا ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے والے حالیہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے نئے چیف جسٹس کے چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے۔ اپنے پیش رو کے اعزاز میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے حکومت کی تمام شاخوں کی اہمیت پر زور دیا جوکہ آئین کی بنیاد ہیں کیونکہ بہت سے حلقوں کے نزدیک آئین کی بنیاد خطرے میں ہے۔ نئے چیف جسٹس کو ابھی نہ صرف آئین کے دفاع کی ایک طویل جنگ لڑنی ہے بلکہ ماضی میں کی گئی عدلیہ کی کوتاہیوں کو بھی درست کرنا ہوگا جنہوں نے ادارے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی متنازع میراث کو عوام کی یادداشت سے مٹاناان کیلئے انتہائی مشکل ہوگا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے عہد کیا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کی شاخوں کی طاقت کو تحفظ فراہم کریں گے۔ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے پر پورا اتریں گے۔ ایک سخت ترین امتحان ان کا منتظر ہے۔