ایم کیو ایم کی عسکری ونگ کے انچارج حماد صدیقی کی گرفتاری، ایم کیوایم کے دھڑوں میں کھلبلی
شیئر کریں
نجم انوار
جنرل آصف نواز، جنرل نصیر اللہ بابر، محترمہ بینظیر بھٹو، سید عبداللہ شاہ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے بلا خوف وخطر بے بانگ دہل کہہ دیا کہ ایم کیو ایم عسکری ونگ چلاتی ہے ۔محترمہ بینظیر بھٹو نے تو یہاں تک ایم کیو ایم کو پیشکش کرچکی تھیں کہ انہیں سندھ کی وزارت اعلیٰ بھی دی جاسکتی ہے ،لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ ایم کیو ایم اپنا اسلحہ کور ہیڈکوارٹر کراچی میں جمع کرائے اور عسکری ونگ سے لاتعلقی کا اعلان کرے۔ لیکن لندن میں بیٹھا ہوا عسکری ونگ کا سر غنہ الطاف حسین بھلا یہ کیسے چاہتا کہ وہ عسکری ونگ کو ختم کرے ان کی حالت تو ایسی تھی جیسے مچھلی کو پانی سے نکال دیا جائے اس وقت تو دنیا دیکھ رہی ہے کہ عسکری ونگ جیسے ہی غیر فعال ہوئی پارٹی کاشیرازہ بکھرگیا۔کوئی بھی بانی ایم کیوایم کی بات نہیں مان رہا ۔اسی لیے وہ آپے سے باہر ہوکر اپنی اصلیت دکھا رہے ہیںاوربازاری زبان پراترآئے ہیں
عسکری ونگ تو پارٹی کا نام تھا جبکہ سیاسی ونگ تو اس کی چھوٹی سی شاخ تھی یہی بیچارے سیاسی ونگ کے لوگ گونگوں کی طرح گھنٹوں بیٹھ کر لندن سے آنے والی کالز کو سنتے تھے ان کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ عسکری ونگ دو طرح کی تھی ایک تو کراچی تنظیمی کمیٹی کے ذریعہ یونٹ، سیکٹر اور جوائنٹ سیکٹر انچارجز، لیبر ڈویژن، اے پی ایم ایس او کے ذریعہ کرائی جاتی تھی دوسری عسکری ونگ کو کوڈ ورڈ میں ’’سیٹ اپ‘‘ کہا جاتا تھا یعنی اس کو صرف لندن اور جنوبی افریقہ سے کنٹرول کیا جاتا تھا ’’سیٹ اپ‘‘ اتنا طاقتور تھا کہ پوری پارٹی اس کے سامنے بے بس تھی اور کسی کو پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اس کا انچارج کون ہے؟ دو مسلح افراد اگر کوئی کاروائی کرنے جاتے تھے تو دونوں کو پتہ نہیں ہوتا تھا کہ انہیں کس کے حکم یہ کس کے خلاف کاروائی کے لیے بھیجا گیا ہے؟ کارروائی کرنے والے ایک دوسرے کا نام بھی نہیں جانتے تھے۔
2008 سے لے کر 2013 تک کراچی تنظیمی کا انچارج حماد صدیقی تھا۔ اس دور میں ایسے تاریخی جرائم ہوئے جن کا ذکر سنتے ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جب وکلاء کو زندہ جلایا گیا۔ جب بلدیہ ٹائون کی فیکٹری کو جلایا گیا جس میں 258 مزدور جل کر ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے، ڈاکٹر عمران فاروق کو لندن میں قتل کردیا گیا۔ قتل میں ملوث، دو ملزمان کاشف کامران اور محسن علی سید پہلے ہانگ کانگ اور پھر سری لنکا بھاگ گئے جب وہ سری لنکا سے کراچی پہنچے تو حماد صدیقی خود ائیر پورٹ گئے ۔ان کے حکم پر خالہ شمیم نے ایک بینک کے ای ٹی ایم سے پیسے نکال لیے جیسے ہی دونوں ملزم ایئر پورٹ سے باہر آئے حساس اداروں نے انہیں حماد صدیقی اور خالہ شمیم کو گرفتار کرلیا۔ حماد صدیقی کی گرفتاری سے الطاف حسین اور گورنر سندھ عشرت العباد کی نیندیں حرام ہوگئیں عشرت العباد نے دوڑے دوڑے فوجی حکام کے پاس گئے اور منت سماجت کی اور بڑی کوششوں کے بعد حماد صدیقی کو چھڑا لیا۔ کیونکہ حماد صدیقی تو دہشتگرد ونگ کے سربراہ تھے۔ حماد صدیقی تو اتنے طاقتور تھے کہ وہ روزانہ ارکان پارلیمنٹ اور ارکان رابطہ کمیٹی کو پٹواتے تھے کھل کر ان پر تشدد کرنے کا حکم دیتا تھا ان کو کہنا تو دور کی بات ہے ان کی طرف آنکھ اٹھانے والا بھی کوئی بھی نہ تھا بلدیہ ٹائون میں کپڑے بنانے والی فیکٹری سے 25 کروڑ روپے بھتہ حماد صدیقی نے مانگا اور جب مطلوبہ بھتہ نہ ملا تو اس فیکٹری کو رحمان بھولا اور رضوان قریشی سے مل کر جلا ڈالا اور 258 زندہ انسان جل کر کوئلہ بن گئے مگر اس پتھر دل حماد صدیقی کے دل میں رحم نہ آیا اور پھر لندن میں بیٹھا ہوا فرعون اس کو شاباش دیتا رہا۔
اسی طرح شہر میں ٹارگٹ کلنگ ہوتی رہی محرم میں یوم عاشور کے موقع پر دھماکہ ہوا 44 افراد لقمہ اجل بنے یہ سب حماد صدیقی کے حکم پر ہوتا رہا مگر کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ اس کو کچھ کہتا ہر روز نائن زیرو پر ایک تماشہ لگتا۔ حماد صدیقی کے پاس ایک ٹیم ہوتی اور پھر جس کو چاہتا اس پر تشدد کرواتا حماد صدیقی کے بھارت، لندن اور جنوبی افریقہ کی مافیا کے ساتھ روابط تھے ان کا فرنٹ مین عمیر صدیقی ہر ماہ بھارت جاتا تھا ،پھر لندن اور جنوبی افریقہ جاکر بھاری رقومات اور اسلحہ کا لین دین کرتا لیکن حساس اداروں نے انہیں گرفتار کیا تو حماد صدیقی کی نیند حرام ہوگئی۔ اسی روز ہی حماد صدیقی کی کمر ٹوٹ گئی یوں حماد صدیقی کے بھی برے دن آنے لگے۔ وہ 23 مئی 2013ع کو دبئی چلے گئے۔ اب وہ قانون کی گرفت میں آچکے ہیں انٹرپول نے ان کو گرفتار کرلیا ہے۔ حماد صدیقی کی گرفتاری نے ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کے رہنمائوں کے نیندیں حرام کردی ہیں اور وہ اب اس خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ کیونکہ جو بدترین تشدد اور دہشت گردی حماد صدیقی کے دور میں ہوئی اور اب وہ جب تحقیقاتی اداروں کے سامنے آئے گی اورکئی انکشافات سامنے آئیں گے ۔ کئی چہروں سے نقاب اتر جائیں گے۔ حماد صدیقی کے ا صل پول تو عمیر صدیقی پہلے کھول چکے ہیں اس لیے جب وہ عدالتوں میں پیش ہوں گے تو بہت کچھ سامنے آئے گا اور پاکستان کے عوام نئے حقائق سے آشکارہوں گے۔