کیا سیاسی و معاشی استحکام کے لیے ریفرنڈم ضروری ہے؟
شیئر کریں
موجودہ نا اہل حکمران ٹولہ ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ملک و قوم کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا۔ موجودہ لٹیرے او ر ڈکیت حکمران اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں ۔ غریب عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں ۔ مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے ۔ نواز شریف کے بچے اربوں کھربوں میں کھیل رہے ہیں ۔ موجودہ ڈکیت حکمران ٹولہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ۔معیشت کا انہوں نے بیڑا غرق کر دیا ہے۔آج حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے قوم کا بچہ بچہ مقروض ہے ۔
پانامہ کیس کے بعد شریف خاندان پر کرپشن کے کیس بنے۔ سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو نا اہل قرار دیا تو ن لیگ کی سیاست میں بھونچال آگیا۔ حکمرانوں نے ظاہراً سپریم کورٹ کا فیصلہ مانتے ہوئے عدلیہ کو تضحیک اور طعن و طنز کا نشانہ بنایا۔ عدلیہ کے وقار کو پامال کیا۔ عدلیہ نے نیب کو شریف خاندان کی کرپشن پر ریفرنسز دائرکرنے کو کہا تو نیب کا بھی تمسخر اڑایا گیا۔ حد تو یہ ہوئی کہ نا اہلی کے بعد میاں محمد نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور تک ریلی نکالی ۔ یوں وہ عوام کی ہمدردی بٹورنا چاہتے تھے۔ ریلی میں صرف یہی نعرہ گونجتا رہا ”آخر میرا قصور کیا ہے، مجھے کیوں نکالا؟“اس ریلی کی وجہ سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہوئے۔ مریض جو اسپتال جانا چاہتے تھے اس ریلی کی وجہ سے علاج سے محروم رہے۔روزی روٹی کی تلاش میں جو غریب ریڑھیاں لگاتے تھے انتظامیہ نے وہ الٹا دیں ۔ دکانداروں کی دکانیں بند رہیں اسکولز سے بچوں کی چھٹی کروائی گئی ۔ایک سابق نااہل وزیرِاعظم کے لیے جی۔ٹی روڈ ہی بندرہا جس سے عوام کا آنا جانا بری طرح متاثر ہوا۔
نواز شریف کے ساتھ ساتھ ان کی اولاد اور داماد پر بھی کرپشن کے کیسز بنے۔ شروع شروع میں تو ان کے بچے عدالت کے سامنے پیش ہوئے مگر اب وہ والدہ کی بیماری کا بہانہ بنا کر لندن میں جا بیٹھے ہیں ۔ عدالت سے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہو چکے ہیں مگر ان کو پرواہ ہی نہیں ۔ خود نواز شریف گزشتہ ہفتے نیب میں پیش نہ ہوئے تو نیب نے ان کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کر دیے ۔ اب اگر وہ مقررہ تاریخ کو پیشی پر حاضر نہیں ہوں گے تو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو جائیں گے۔ گویا شریف خاندان کےلیے نیب کے ریفرنسز اور پیشیاں ایک مذاق ہیں ۔ مریم نواز اور(ر) کیپٹن صفدر جب پیشی پر آتے ہیں تو یوں شان و شوکت سے آتے ہیں گویا کسی ملک کے شہزادے اور شہزادی اعلیٰ درجے کی پارٹی اٹینڈ کرنے چلے ہوں ۔ موجودہ ن لیگی حکومت بھی شریف خاندان کے سامنے بھیگی بلی بنی ہوئی ہے۔ اسے بھی قانون و آئین کا کوئی احساس نہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نا اہلی کے بعد نہ صرف شریف خاندان سے منہ موڑ لیتی بلکہ ملزموں کو عدالت، نیب میں پیش ہونے پر مجبور کرتی۔ مگر یہ حکومت اس معاملے میں بالکل نا اہل رہی۔ شاہد خاقان عباسی کو ابھی تک یقین ہی نہیں آیا کہ وہ وزیر اعظم بن چکے ہیں اور یہ منصب ان سے کیا تقاضے کرتا ہے۔ خود ان کا نام ایل این جی ا سکینڈل میں آرہا ہے۔
موجودہ حکومت میں ایک او ر وزیر اسحق ڈار جو کہ ہمارے وزیر خزانہ ہیں ، پر بھی آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے۔ ان پر بھی نیب میں کیس چل رہا ہے مگر ہٹ دھرمی دیکھئے کہ وہ ابھی تک اپنے منصب سے لپٹے ہوئے ہیں ۔ اسحق ڈار قوم کے سامنے جھوٹے اعداد و شمار پیش کر کے بے وقوف بناتے رہے۔ 83ارب ڈالر کا قرضے کا بوجھ غریب عوام پر لاد دیا ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے 35 ارب روپے کے قرضے حاصل کئے اور عوام کی گردن غیر ملکیوں کے ہاتھ میں پکڑا دی۔ پچھلے قرضے ادا کرنے کےلیے مزید قرضے لیے گئے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان قرضوں کے معیشت پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ اب تک تو صرف عوام کے سر پر قرضوں کا بوجھ ہی پڑا ہے۔ عوام کی خوشحالی کہاں گئی۔ اس کا جواب ان کے پاس نہیں ۔
سابق نا اہل وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ”پاکستان ترقی کر رہا تھا یہ کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہوا اسی لیے مجھے نا اہل قرار دیا گیا “ ۔ لیکن افسوس کے ساتھ، سابق نااہل وزیرِاعظم صاحب میرے وطن میں معیشت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے۔ روزگار نہیں ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان بے روز گار ہیں ۔ نوکریاں نہیں ، کاروبار نہیں ۔فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں ۔ بجلی، گیس ، پانی کی کمی ہے۔ میرے وطن میں مہنگائی کا دور دورہ ہے جب بھوک غریب کو ستاتی ہے تو وہ چوری کرتا ہے ڈاکا ڈالتا ہے حرام کماتا ہے۔میرے وطنِ عزیز میں لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا ۔ نتیجہ یہ ہے دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ صرف اور صرف کرپشن کی فراوانی ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سالوں میں دھرنوں کی وجہ سے معیشت تباہ ہوئی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ دھرنے معیشت کی تباہی کےلیے نہیں بلکہ آپ کی کرپشن کو عوام تک پہنچانے کےلیے تھے۔ جس میں وہ کامیاب رہے۔ ان دھرنو ں کی وجہ آج آپ کے کرتوت کھل کر عوام کے سامنے آئے۔
پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے جس میں عوام اپنے نمائندگان کا انتخاب کرتے ہیں اور وہ اسمبلیوں میں پہنچ کر قانون سازی اور مفاد عامہ کے کام سرانجام دیتے ہیں ۔ جہاں تک جماعتی انتخابات کا سوال ہے تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت منظم نہیں ۔ شرح خواندگی 20 فیصد سے بھی کم ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان میں حق رائے دہی کی بنیاد یا تو ذات برادری یا قومیت یا وڈیرہ شاہی یا سرداروں کے دباؤ اور یا مذہبی فرقہ بندی کی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ لوگوں کے مسائل یا سیاسی جماعتوں کے منشور کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کے اتنے ممبران کو کامیاب کروایا جائے جس سے وہ اپنا وزیر اعظم منتخب کروا سکیں گویا کہ امیدوار کا معیار تعلیم یا عوام کے مسائل میں دلچسپی یا تجربہ نہیں ہوتا بلکہ ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ ان مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں اور انتخابات کے بعد ان خرچ کی گئی رقوم سے کئی گنا زیادہ لوٹ کھسوٹ اور رشوت خوری کے ذریعے اکٹھے کئے جاتے ہیں گویا کہ ان انتخابات کی بنیاد ہی عوام کی دولت کی چوری اور ڈاکہ زنی پر رکھی جاتی ہے ۔
پارلیمانی نظام ہم پچھلے 60 سالوں سے آزما رہے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو بار بار وہی چوہدری وہی سید وہی سردار وہی وڈیرے یا ان کی اولادیں جمہوریت کے نام پر ہم پہ مسلط ہو کر پھر سے اپنی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیتی ہیں ۔ یہ لٹیرے اب تک جو لوٹ کھسوٹ کر چکے ہیں اگر اس کا 25 فیصد ہی واپس مل جائے تو پاکستان اپنے تمام بیرونی اور اندرونی قرضے بڑی آسانی سے اتار سکتا ہے۔اس نظام کو جاری رکھنے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ببول بیج کر گندم ا±گنے کی امید لگالی جائے۔ 60 سال اس انتظار میں گزر گئے 160 سال اور بھی گزر جائیں تو مسئلہ وہیں کا وہیں کھڑا رہے گا اور اس دوران عوام کے مسائل ان کی جہالت، غربت، بیروزگاری اور خود کشیوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ خاندانوں کے گرد گھومنے والی سیاست اور جمہوریت نے عوام کو بدامنی ، مہنگائی ، ناانصافی اور ٹیکسوں کے تحفے دیے ہیں ۔جمہوریت اگر اس چیز کا نام ہے کہ کچھ لوگ عیش و عشرت کریں اور عوام غربت اور مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں اور عام آدمی بھوکا مر تا رہے تو ایسی جمہوریت سے عوام بے زار ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اپنی مقبولیت کھو چکی ہے۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر موجودہ سسٹم عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے تو اس کی جگہ اور کونسا نظام زیادہ بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ اپنے ملک کے اندر ان تمام تضادات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں پارلیمنٹری سسٹم کی بجائے صدراتی نظام حکومت کہیں زیادہ کامیاب ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت بھی انتخابات ہو سکتے ہیں ۔ ان انتخابات میں شخصیات کی بجائے صرف پارٹی کو ووٹ دیا جاتا ہے۔ بڑی بڑی پارٹیاں اپنے منشور عوام کے سامنے پیش کریں ۔ عوام صرف پارٹی کو ووٹ دیں ۔ ووٹوں کے حساب سے اس پارٹی کی نمائندگی ہوگی۔ کسی کو اعتراض بھی نہ ہوگا کہ فلاں پارٹی نے زیادہ ووٹ لیے اورفلاں پارٹی نے کم ووٹوں کے باوجود حکومت بنا لی۔ یوں الیکشن کمیشن بھی جانبداری کے الزام سے بچ جائے گا اور ہر پارٹی کو عوام میں اپنی حیثیت کا پتہ چل جائے گا۔
پارلیمانی نظام کی اکائی بلدیاتی نظام ہوتا ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پی پی پی اور ن لیگ کی حکومتوں نے اپنے ادوار میں اول تو بلدیاتی انتخابات ہونے ہی نہیں دیے اور جب ن لیگ نے سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات کروائے تو ان میں اپنے نمائندوں کی اکثریت کے باوجود بلدیاتی اداروں کو فنڈز فراہم نہ کئے۔ اس کے علاوہ نچلی سطح پر اختیارات منتقل نہ کئے اور فرد واحد ہی کے پاس تمام اختیارات رہے۔
لہذا اس بارے میں عوام سے ریفرنڈم کے ذریعے یہ پوچھا جائے کہ کیا موجودہ پارلیمانی نظام ملک کی سیاسی اور معاشی استحکام کا مظہر ہےَ۔ کیا وہ پارلیمانی نظام کو پسند کرتے ہیں ؟ ۔کیا اس پارلیمانی نظام نے ملک کے معاشی اور سیاسی مسائل حل کئے؟ کیا عوام کے مسائل حل ہوئے؟ جبکہ آئین میں واضح طورپر منتخب نمائندوں اور حکومت کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ اسلام کے اصولوں کے مطابق عوام کو سہولیات فراہم کرے۔ صحت، تعلیم ، میرٹ ، روزگار، جان و مال کا تحفظ ، احتساب کا عمل ، کیا کسی حکومت نے یہ سب کچھ دیا۔
ملک میں بحث وتمحیص اور رائے عامہ معلوم کئے بغیر چند منٹوں میں 18 ترمیم منظور کر لی گئی۔ اس ترمیم سے وفاق کمزور ہوا اور صوبوں کے اختیارات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ نتیجہ کہ مرکز کے معاشی وسائل کم ہوئے اور صوبائی حکومتوں نے بھی ٹیکس کی وصولیابی کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں بنایا ۔ مرکز کی آمدنی کم ہونے سے صوبوں کو پیسہ نہ مل سکا اور آپس کی رنجشیں اور کدورتیں بڑھنے لگیں ۔ دنیا میں تعلیم کے شعبے میں یکساں نظام رائج ہے۔ پورے ملک میں ایک ہی نظام تعلیم رائج ہوتا ہے۔ مگر 18 ویں ترمیم میں یہ شعبہ بھی صوبوں کے سپرد کر دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر صوبے نے اپنی مرضی کا نظام تعلیم رائج کیا۔ جس سے لسانی اور علاقائی تحفظات پیدا ہوئے جو ملکی وحدت اور استحکام کے خلاف ہیں ۔ میرے ملک کے سرکاری سکولز کی حالت غیر ہے جہاں طلبہ کے لیے بیٹھنے کو بینچ یا کرسیاں نہیں ملتیں چلیں کرسیاں تو دور کی بات سر ڈھانپنے کو وہاں چھتیں ہی نہیں لکھنے کو تختہ نہیں اساتذہ کا اتہ پتہ نہیں ۔ ریفرنڈم میں عوام سے یہ بھی پوچھا جائے کہ کیا وہ یکساں نظام تعلیم کے حامی ہیں یا علاقائی۔ ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بسترموجود نہیں جس کی وجہ سے وہ گھر سے چارپائیاں ہسپتال لانے پر مجبور ہو گئے۔سرکاری ہسپتالوں میں جدید آلات تو کیا شائدجان بچانے کو وینٹی لیٹر بھی دستیاب نہ ہوں ۔ اس کے علاوہ ریفرنڈم میں عوام سے یہ بھی پوچھا جائے کہ کیا وہ ملک میں سیاسی اور معاشی بحران کی صورت میں وفاق کو زیادہ اختیارات دینے کے حق میں ہیں یا صوبوں کو۔
ریفرنڈم میں یہ بھی پوچھا جائے کہ اگر عام انتخابات کرانے مقصود ہوں تو اس سے قبل حالیہ مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیاں کرائی جائیں ۔ آبادی کے تبدیل شدہ تناسب کے لحاظ سے علاقوں میں اسمبلیوں کی نشستوں کو کم یا زیادہ کیا جائے۔ اس مقصدکے لیے چاہے جتنا بھی وقت درکار ہو ، دیا جائے۔ اس عرصے میں سال یا دوسال کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور ماہرین پر مشتمل قومی حکومت بنائی جائے جو صاف اور شفاف عام انتخابات کے ا نعقاد کے ساتھ ساتھ اقتصادی ، معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے بھی کام کرے۔
ریفرنڈم میں یہ بات بھی پوچھی جائے کہ کیا عوام اس حق میں ہیں کہ جن لوگوں نے قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک چھپا رکھی ہے، انہیں پکڑ کر سرمایہ ملک میں واپس لایا جائے اور کسی لٹیرے کو بھی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔سب کا یکساں احتساب ہو۔ کرپٹ اور بد دیانت حکمرانوں نے ملک و قوم کو نہ صرف دنیا بھر میں بدنام کیا بلکہ عام آدمی کو صیہونی مالیاتی اداروں کی غلامی کی ہتھکڑیاں پہنائیں اور آنے والی نسلوں کو مقروض کیا۔ حکمران اپنا سرمایہ ملک میں لگانے کی بجائے باہر منتقل کرتے رہے اور دعوے کرتے رہے کہ ہم بیرون ملک سے پاکستان میں سرمایہ کاری لارہے ہیں ۔مگر ریفرنڈم سے پہلے بھی ایک کام ہونا چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتوں کی اور عسکری قیادت صدر مملکت کو ملک میں سیاسی و معاشی بحران کے حل کےلیے معاشی ایمرجنسی کی تجویز دے۔ تاکہ اس عرصے میں موجودہ حکمرانوں کا احتساب ہوسکے اور ملک سیاسی و معاشی میدان میں ترقی کر سکے۔