میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈاکٹررتھ فائو اور جدید ریاست کے پیغمبر!!!

ڈاکٹررتھ فائو اور جدید ریاست کے پیغمبر!!!

ویب ڈیسک
جمعه, ۱ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

میں ڈاکٹررتھ فائوکی موت پرجان بوجھ کردیرسے لکھ رہاہوں۔اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارامیڈیابڑابدمعاش ہے۔ یہ کسی واقعہ کے ہونے پرایک ایساپروپیگنڈا کرتاہے جس سے اچھے اچھے لوگ اپنادماغ اس میڈیا کے پاس جمع کروادیتے ہیںاوران کی رائے وہی ہوتی ہے جوٹی وی پرنظرآتی ہے ۔وہ وہی الفاظ،خیالات اورجذبات کی ترجمانی کرنے لگتے ہیںجوان کے ذاتی نہیں ہوتے بلکہ لوگ یہ جذبات اورخیالات میڈیا سے ادھارلیتے ہیں۔
میڈیاکسی معمولی سے واقعہ کوایساہولناک بنادیتاہے کہ اس کے سامنے اسی روزکوئی بہت بڑاسانحہ بھی معمولی لگتاہے ۔اس کی مثال ہم مشال خان قتل کیس سے لے سکتے ہیں۔جس روزیہ لڑکاقتل ہوااسی روزدنیامیںدوبڑے واقعات پیش آئے اوران دوواقعات کے اثرات تاریخ سازاہمیت رکھتے تھے مگرمیڈیانے ان دوواقعات کے مقابلے میںمشال خان کے واقعے کوایسے پیش کیاکہ آج لوگوںکومشال خان کے قتل والے روزکوئی دوسرااہم واقعہ یادتک نہیں ہوگا۔اُن دو واقعات میں سے ایک تو یہ تھا کہ اسی روزامریکانے افغانستان میںمدربم گرایاجس سے کئی فٹ گہراگڑھاپڑگیااورسینکڑوںلوگ موقع پرمارے گئے جبکہ اس بم کے اثرات سے پھیلنے والی تباہی کاریکارڈجمع کرنے میں سالوںلگیں گے ۔یہ دنیاکاسب سے وزنی غیرایٹمی بم تھامگرکیاکسی کویادہے کہ یہ بم اسی روزگرایاگیاجس روزمشال خان قتل ہوا؟نہیں یادکیوںکہ میڈیانے اس خبرکوقتل کردیا۔اس خبرکازہرنکال دیاکیونکہ یہ بم آزادی کے ’’عقیدے ‘‘کے دفاع کے لیے گرایاگیاتھا۔دوسراواقعہ امریکی عدالت میں ایک خاتون جج کاقتل تھا۔تصورکریں کہ اگر یہ قتل پاکستان میں کسی خاتون جج کاہوتاتومیڈیااوراین جی اوز بال کھول کر بین کرنے والی مائی کی طرح چیختے چلاتے سڑکوںپرنکل آتے مگرکیونکہ یہ قتل امریکا میں ہواتھااس لیے تمام بدمعاش خاموش رہے اوراس خبر کومعمولی خبربناکرپیش کیاگیاجبکہ اس کے مقابلے میں مشال خان کے قتل کوقومی سانحہ کے طورپرپیش کیاگیا۔
اس تفصیل میں جانے کامقصد یہ تھاکہ رتھ فائوصاحبہ کی موت کے وقت اگرمضمون لکھا جاتا تولوگ شاید جذباتی کیفیت کی وجہ سے سنجیدگی سے نہ لیتے اورکہہ دیتے کہ یہ توبس تنقید کرتے ہیںان کاکام ہی تنقید کرناہے وغیرہ وغیرہ ۔خیراصل موضوع کی طرف آتے ہیںسوال یہ ہے کہ ڈاکٹررتھ فائوکومرنے کے بعدجوپروٹوکول ملا،جوعزت ملی، اس کاتعلق ایک اسلامی ریاست کے ساتھ کیسے ہوسکتاہے ؟کیاایک اسلامی مملکت کسی غیرمسلم کے مرنے پراتنی جذباتی ہوسکتی ہے ؟ڈاکٹررتھ فائوکوان کی زندگی میں نشانِ قائد اعظم ،ہلالِ پاکستان، ہلالِ امتیازکے علاوہ کئی سول اعزازات سے نوازاجاچکاتھا۔پھران کی آخری رسومات اس شاندارطریقے سے مسلمانوںنے کیوںمنائی ؟پاکستان میں جس عقیدت اوراحترام کے ساتھ دوشخصیات کی آخری رسومات اداکی گئی ہیںوہ اعزازان سے پہلے کسی کونصیب نہیں ہوا۔ایک مرحوم ایدھی صاحب اوردوسری محترمہ رتھ فائوہیں۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ آیااسلام میں کسی غیرمسلم کی آخری رسومات میں شرکت کرنااس کی میت کے ساتھ ساتھ چلنااس کے جنازے کے پاس غم کی تصویربن کرکھڑے رہنااس کی تعظیم میں سرجھکانااس کے ساتھ اظہاریکجہتی کرنے کے لیے اس کی عبادت گاہ چلے جانااس کاآخری دیدارکرنے کی کوشش کرنے جیسے معاملات کااسلام سے کیاتعلق ہے ؟ان تمام سوالات کے جوابات مانگناعلمائے کرام کاکام تھا،یاعلمائے کرام اس معاملے پراپنی رائے کااظہارکرتے ۔وہ علمائے کرام جوبکری کے مرنے پراپنی رائے کااظہارکرنے سے بازنہیں رہتے وہ اس معاملے پرایسے گم ہیںجیسے دن کی روشنی میں تارے ۔یہ جوکچھ ہورہاہے اوراس پرجس طرح کی غفلت لاپرواہی اورمجرمانہ خاموشی کامظاہرہ علمائے کرام کررہے ہیںتاریخ ان کوکبھی معاف نہیں کرے گی۔ امام مالکؒکا ماننا تھاکہ ہر سوال کا جواب دینا ایک عالم کے لیے فرض نہیں ہوتا مگر آج کے زمانے کے بعض علماء کو یہ قول قبول نہیں۔ جوعلماء ویناملک کی شوہرسے صلح کرواتے ہیں، وہ مولوی صاحبان جونرگس کوحج پرلے جاتے ہیںاوروہ علماء جوہرمسئلے پراسلام کودرمیان میں لے آتے ہیں،وہ یہاںبھی اظہارخیال کرتے نا؟یہاںپرجلتے ہیں؟
ہم محترمہ رتھ فائوپربات مذہب کوبنیادبناکر نہیں کریں گے ۔یہ فریضہ علمائے کرام کاہے اورانہیں ضروراداکرناچاہیے تھا۔ہم بات کرینگے کہ اس ریاستی عقیدت اوراحترام کی جو ایک مرتبہ پھر سامنے آیا اور ہم بات کریں گے اس کے پیچھے جوسوچ اورفکریا جونظریہ اورعقیدہ چھپاہواہے وہ کیاہے ؟ڈاکٹررتھ فائواورعبدالستارایدھی صاحب دونوںاچھے لوگ تھے۔ نرم دل رکھتے تھے اوردکھی انسانوںکی مددکرتے تھے ۔مگران دونوںکومعلوم نہیںتھاوہ اس جدیددنیاکے پیغمبر ہیں۔ جدید ریاست میں جوشخص ریاست کے پیداکردہ مسائل کے حل میں اپناکرداراداکرتاہے ۔اورریاست کے فرائض کواپنے ذمہ لیتاہے ریاست اس کے مرنے پراس کااسی طرح شکریہ اداکرتی ہے ۔کسی بھی معاشرے میں دوطرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ایک جولوگوںکی ظاہری، مادی زندگی کے لطف کوبحال رکھنے اوردوبالاکرنے میں اپناکرداراداکرتے ہیں۔ یہ لوگ ڈاکٹر، انجینئر یا سائنسداںبھی ہوسکتے ہیں۔ دوسرا طبقہ ہوتاہے ان لوگوںکاجومعاشرے کے لوگوںکی روحانی باطنی بیماریوںکاعلاج کرتے ہیں۔ان کے عقیدے کی حفاظت کرتے ہیں۔یہ حضرات لوگوںکی آخرت کوسنوارتے ہیں۔ان کودنیاعلماء ،مشائخ ،صوفی ،ولی کے القابات سے جانتی ہے ۔دونوںطرح کے لوگوںکے عمل کامیدان انسان کی زندگی ہوتاہے مگردونوںطرح کے لوگوںکے نظریے میں زمین اورآسمان کافرق ہوتاہے ۔جولوگ کسی انسان کی باطنی دنیاکوسنوارنے اورسنبھالنے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ جدیدریاست کے لیے ایسے لوگوںغیراہم ہوتے ہیں۔ریاست ایسے لوگوںسے کوئی کلام نہیں کرتی ۔جبکہ اس کے مقابلے میں جوحضرات لوگوںکی ظاہری دنیاکوچارچاندلگانے اورسنوارنے کاکام کرتے ہیں،ریاست ان کوجیتے جی بھی قبول کرتی ہے اورمرنے کے بعدبھی عزت سے نوازتی ہے۔ کیونکہ یہی لوگ درحقیقت ریاست کی بقاء اور سلامتی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
جدیدریاست کے تین عقیدے ہیں۔ آزادی ،مساوات اورترقی ۔آزادی کے لیے ضروری ہے کہ کوئی شخص مکمل صحت مند ہو۔تاکہ وہ دنیا کو زیادہ اچھے طریقے سے انجوائے کرسکے۔ جدیدریاست جب اپنے تیسرے عقیدے ترقی کوحاصل کرنے کے لیے صنعتیں لگاتی ہے تواس کے نتیجے میں بیماریوںکاایک ایساسونامی آتاہے جوسنبھالنااکیلی ریاست کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔اورالمیہ یہ ہوتاہے کہ صنعتی ترقی سے پیداہونے والی بیماریوںکے بارے میں ریاست کوپیشگی علم بھی نہیں ہوتا۔جب بیماریاںیلغارکرتی ہیںاس وقت عبدالستارایدھی اورڈاکٹررتھ فائوجیسے لوگ آگے بڑھتے ہیںاورریاست کاکام اپنے ذمہ لیتے ہیں۔لہذاریاست ایسے لوگوںکاماتھا جیتے جی بھی چومتی ہے اورمرنے کے بعدبھی۔ ترقی کے نتیجے میںشوکت خانم لاہوربنتاہے پھرکراچی اورپھرشوکت خانم پشاوربنتا ہے۔شوکت خانم کھلنے کامطلب یہ نہیں ہوتاکہ کینسرکاعلاج ہوجائے گابلکہ اس کامطلب ہوتاہے کہ اب کینسرلاعلاج ہوجائے گا۔ترقی سے پیداہونے والی بیماریوںکوکنٹرول کرنے کے لیے انڈس اسپتال اورSIUT اسپتالپیداہوتے ہیں۔اوربے شمارخیراتی ادارے جنم لیتے ہیں۔ایدھی صاحب نے ساری زندگی محنت کی مگراس محنت سے بھکاری کم نہیں ہوئے بلکہ اب ،چھیپا،سیلانی ،عالمگیر،الخدمت اوربے شمار چھوٹے چھوٹے ایدھی پیداہوچکے ہیں۔اوریہ تمام مخیرحضرات اس جدیدریاست کے لیے پیغمبرکا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا مذہب، رنگ ونسل، ملک وملت اور قومیت ریاست کے لیے غیر اہم ہوتے ہیں،کسی بھی ترقی یافتہ ریاست یاترقی کی خواہش رکھنے والی ریاست کی پارلیمنٹ کاصرف ایک کام ہوتاہے کہ عوام کی مادی خوشی میں اضافہ کرنا۔دراصل پارلیمنٹ صرف یہ ایک کام کرتی ہیں جبکہ اس جدیدریاست کے مقابلے میں قدیم سوسائٹی میں اول تو اتنی بیماریاںہوتی ہی نہیں تھیں اوراگربیماریاںہوتی تھیں تووہ عالمگیرنہیں ہوتی تھیں۔آج کاانسان جب موہنجوداڑوکے کھنڈرات دیکھتاہے توبے اختیاریہ سوال کرتاہے کہ یہاںکی گلیاںاتنی تنگ کیوںہیںوہ یہ سوچنے اورسمجھنے سے قاصر ہے کہ موہنجوداڑوکے لوگ صحت مندتھے۔ لہذا وہاں کسی گلی میں کبھی ایمبولینس کے آنے کی نوبت پیش نہیں آئی جس کے لیے چوڑی گلی کی ضرورت ہوتی۔ دوسرا اگر کوئی اس تہذیب میں بیمار ہوتا تھا تو طبیب خود چل کر اس کے گھر آتا تھا اور اس عمل کو اپنا فریضہ سمجھ کر انجام دیتا۔ اس زمانے میں میڈیکل انڈسٹری کا ظہور نہیں ہوا تھا لہٰذا طبیب انسان تھے سرمایہ دار نہیں ۔
جدید بیماریوں کا سبب ماڈرن ازم اور ماڈرن طرز زندگی ہے، سویلائزیشن ہے۔ اور جدید ریاست ان تمام بیماریوں سے اکیلے مقابلہ نہیںکر سکتی۔ ان کی مدد کرنے کے لیے مادیت کے پیغمبر سامنے آتے ہیں۔ جدید ریاست اس سوال کا جواب نہیں دیتی کہ مسئلہ پیدا کس نے کیا ہے ۔وہ صرف اس سوال کا جواب دیتی ہے کہ مسئلہ حل کیسے کیا جائے۔SIUT میں گردے صاف کیے جاتے ہیں مگر گردے گندے کس کی وجہ سے ہوئے اس کا جواب تلاش نہیں کیا جاتا۔کیونکہ جہاں بھی انڈسٹری لگے گی وہاں پانی گندا ہوگا اور لوگ مریں گے ۔ لہذاجوکوئی لوگوںکواس نظام پران کے ایمان کومتزلزل کیے بغیرزندہ رکھنے کی کوشش میں ریاست کاساتھ دے گاریاست اس کورتھ فائواورایدھی جیساپروقاراختتام دے گی۔ان کے مقابلے میں ہزاروںلاکھوںشاگردرکھنے والاعالم،ولی اورصوفی جدیدریاست کے لیے غیراہم ہے کیونکہ ریاست کاعقیدہ ہے آزادی ،مساوات اورترقی ،ان ہی عقائد کے نتیجے میں ایک ماڈرن ، پڑھا لکھا، سمجھدار اور جدید عملیت کے مطابق عقل مندانسان پیداہوتاہے ۔وہ مذہبی لوگ جو لوگوں کی باطنی اور روحانی تربیت کرتے ہیں یا لوگوں کی روحانی بیماریوں کا علاج کرکے ان کی آخرت بچاتے ہیں جدید ریاست کے لیے ایسے لوگ کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ جدید ریاست کا آخرت پر ایمان ہی نہیں ہے۔ اس کے نزدیک آخرت ایک غیر اہم بحث ہے علمائے کرام اور ولیوں موجودگی سے جدید ترقی یافتہ ریاست کے پھلنے پھولنے کے امکانات محدود ہوتے ہیں۔یہ حضرات سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔البتہ اگر چند علماء سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کے حامی ہوں تو ریاست ان کو بھی گلے لگاسکتی ہے۔ایدھی اورڈاکٹررتھ فائوجدیدریاست بچائومہم قافلے کے آخری شہیدنہیں ہیںبلکہ اس قافلے کے بدری ہیں۔مسلمان اورصاحب ایمان حضرات ریاست کی طرف سے ایساپروٹوکول دیکھ کردل چھوٹانہ کیاکریں ۔نہ ہی وہ یہ سوچیں کہ ریاست جذباتی ہوگئی تھی۔ ریاست جذباتی نہیں ہوتی ۔بلکہ وہ ہرکام اپنے عقیدے کی روشنی میں کرتی ہے۔ اب اگر وہ عقیدہ ہمیں معلوم نہ ہوتو اس میں جدید ریاست کا کیا قصور ہے ؟،لبرل، ڈیموکریٹک اورماڈرن، ویلفیئر اسٹیٹ اپنے پیغمبروںکوایسے ہی رخصت کرتی ہے ۔اوررتھ فائوبھی اسی علمیت اورعقیدے کی پیغمبرتھیں ۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں