میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
واٹرکارپوریشن ، پانی چوروں کو سسٹم مافیا کی سرپرستی

واٹرکارپوریشن ، پانی چوروں کو سسٹم مافیا کی سرپرستی

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱ اگست ۲۰۲۴

شیئر کریں

( رپورٹ جوہر مجید شاہ) واٹر کارپوریشن سچ بولنے کی کڑی سزا اسسٹنٹ ڈائریکٹر ریونیو اخلاق بیگ کو معطلی کا پروانہ تھما دیا گیا شہریوں کا مقدمہ لڑنے والا اب نوکری کیساتھ زندگی بچانے کیلے ریاستی اداروں سے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور مگر بااثر سسٹم مافیا کہ طاقت اور چمک نے سب کو اندھا گونگا بہرہ کردیا شہریوں نے سپریم کورٹ سمیت حساس اداروں سے فوری نوٹس لینے کی اپیل کردی دوسری طرف پانی چور مافیا کو کھلی چھوٹ نا کوئی انکوائری نا نوٹس اور نا ہی کوئی سرزنش بس موجیں ہی موجیں جرات انوسٹیگیشن سیل نے ایک اور پانی چوری کا بڑا اسکینڈل کھوج لیا یاد رہے کہ گزشتہ لگ بھگ 2 ماہ قبل مورخہ 20/05/24 ء کو ایک ایف آئی آر نمبر 286/2024 سید امجد حسین جو عزیز آباد ڈویڑن واٹر بورڈ کے سپروائزر و اینٹی تھیفٹ انچارج ہیں کی مدعیت میں درج کی گئی ایف آئی آر متن میں موصوف نے کہا کہ وہ انچارج اینٹی تھیفٹ سیل حکام بالا کی ہدایات پر اسٹاف بمعہ پولیس گرینڈ آپریشن پر تھے کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹ کی اطلاع پر عزیز آباد بلاک نمبر 2 بمقام ریلوے پھاٹک ڈسٹرکٹ سینٹرل پہنچے تو غیرقانونی کنکشن کے زریعے سوزوکیوں سے پانی سپلائی و فروخت کا کام جاری تھا جو کہ زیر نگرانی ‘ شہزاد گجر ‘ کاشف ‘ سہیل عرف کالا چلا رہا تھا ملزمان موقع سے فرار ہوگئے اور متعلقہ انچارج اینٹی تھیفٹ سیل نے کنکشن منقطع کرنے کیساتھ جائے وقوعہ سے ایک عدد واٹر پمپ ‘ روٹر پانی کھینچنے والا ‘ مختلف پانی کے پائپ جن میں 3 تا 5 انچ تک کے پائپ اور فٹنگ کا سامان سرکاری تحویل میں لے لیا مزکورہ کیس کے تفتیشی افسر نثار محمد خان نے لکھا کہ دی گئی درخواست کو وہ لفظ با لفظ تسلیم کرتے ہوئے بجرم زیر دفعہ 3/2-39’34/430 کے تحت مقدمہ درج کرتے ہیں واضح رہے کہ مزکورہ مقدمہ زمینی حقائق کے تحت درج کیا گیا مگر ملی بھگت اور سسٹم مافیا کا سکہ و راج کا کمال دیکھیں گڑ بڑ گھٹالے کے بادشاہ و بازیگر وں کا حسن کمال یہ ہے کہ جسے چاہیں گنہگار اور جسے چاہیں بے گناہ و بے قصور ثابت کریں ذرائع کہتے ہیں کہ مزکورہ کیس کی خبر واٹر کارپوریشن کے محکمہ قانون کو پہنچی ہی نہیں یا پھر سسٹم کا رنگ و کمال انکا بھی طرہ امتیاز ہے اس حقائق پر مبنی زمینی کارروائی کے بعد ایک لیٹر ایکسین گلبرگ ارشد رشید نے بتاریخ 06/06/24 ء کو جاری کیا جس میں درج شدہ مقدمہ نمبر 286/2024 جو کہ 20/05/24 کو درج کیا گیا تھا اسے خارج کرنے کی استدعا کی گئی انھوں نے اسکے حوالے سے لیٹر نمبر RefKw&sc /EE/G2/2024/159 جاری
کیا اور تمام تر زمینی حقائق و شوہدات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ متعلقہ جگہ و علاقے کے سروے کے دوران انھیں کسی بھی قسم کا کوئی غیرقانونی ہائیڈرنٹ نہیں ملا اسلئے اس کیس کو خارج کیا جائے سوال یہ ہے کہ ان افسران میں سے سچا کسے تصور کیا جائے متعلقہ اینٹی تھیفٹ سیل انچارج سید امجد حسین کو یا پھر ایکسین گلبرگ ارشد رشید کو یا پھر ملی بھگت و سسٹم مافیا کا شاخسانہ کہا جائے اس گورکھ دھندے کو واضح رہے کہ واٹر کارپوریشن میں پاک فوج و پاک رینجرز کی مدد سے شہر بھر میں غیرقانونی ہائیڈرنٹس مافیا کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا گیا تھا جس میں درجنوں غیرقانونی ہائیڈرنٹس کو مسمار اور کنکشنز کو کاٹ دیا گیا تھا جبکہ اس حوالے سے درجنوں ایف آئی آرز اور گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں تھیں مگر کسے کتنا جرمانہ جیل و سزا ہوئی یہ بات تاحال معمہ بنی ہوئی ہے اربوں کھربوں کا پانی ڈکار نے والے انکے سرپرست و سہولتکاروں کاروں کا معاملہ آج تک صیغہ راز ہے یا پھر بھاری لین دین و معاوضے نے سب اچھا کردیا اس سے کب اور کون پردہ اٹھاتا ہے یہ سوال اور آسکا جواب ارباب اختیار و اقتدار اور وقت پر چھوڑتے ہیں مگر شہریوں کیساتھ یہ سنگین مذاق ہے جرآت اگلی اشاعت میں اس حوالے سے ایک چونکا دینی والی رپورٹ شائع کریگا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں