میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شمالی کوریا کے میزائل تجربے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین پر برہم

شمالی کوریا کے میزائل تجربے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین پر برہم

ویب ڈیسک
منگل, ۱ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

پیانگ یانگ کے دنیا کے کسی بھی ملک کے اس کے میزائلوں کے نشانے پرہونے کے دعوے نے ہل چل مچادی
ماہرین کاخیال ہے کہ شمالی کوریاکادعوی بے بنیاد ہے اسکے میزائل کسی ہدف کادرست نشانہ لگانے سے قاصرہیں
امریکی صدرکی خواہش ہے کہ چین شمالی کوریاکے خلاف تیزی سے حرکت میں آئے اوراس بیوقوفی کوختم کرڈالے
ایچ اے نقوی
شمالی کوریا نے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے تازہ تجربے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امریکا کیلئے ‘سخت تنبیہ’ ہے۔سرکاری میڈیا کے مطابق شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے کہا کہ اس تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکا اب ان کے میزائل کی رینج میں ہے۔یہ نیا تجربہ شمالی کوریا کے پہلے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تجربے کے تین ہفتے بعد کیا گیا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ‘شمالی کوریا کی جانب سے کیے جانے والے تجربے کو ’لاپرواہ اور خطرناک عمل’ قرار دیا ہے۔چین نے بھی میزائل کے تجربے کی مذمت کی ہے تاہم اس سے منسلک تمام فریقین کو ‘ضبط سے کام لینے’ اور ‘کشیدگی سے بچنے’ کی تلقین کی ہے۔اس تجربے کی تصدیق کرتے ہوئے شمالی کوریا نے کہا کہ بیلسٹک میزائل نے صرف 47 منٹ میں 3724 کلو میٹر کی بلندی حاصل کر لی تھی۔شمالی کوریا کی سینٹرل نیوز ایجنسی نے کہا: ‘کوریا کے رہنما نے فخر کے ساتھ کہا کہ اب امریکا کی ساری سرزمین ہمارے نشانے کی زد میں ہے۔بیان میں کہا گیا کہ راکٹ کا جو ماڈل اس تجربے میں استعمال کیا گیا وہ ہواسونگ-14 تھا اور یہی ماڈل 3 جولائی کو استعمال کیا گیا تھا۔جمعے کو ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیا تھا کہ میزائل شمالی جاپان کے سمندر میں گرا تھا۔
دوسری طرف امریکی وزارت دفاع کے ایک اہلکار کے مطابق شمالی کوریا کے اس تجربے کے جواب میں امریکا اور جنوبی کوریا نے زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل کی مشق کی ہے۔امریکی فوج کے ایک بیان میں کہا گیا کہ جنوبی کوریا کے مشرقی ساحل پر یہ میزائل داغے گئے۔جنوبی کوریا کے وزیر دفاع نے کہا کہ ان کا ملک شمالی کوریا کے خطرے سے نمٹنے کے لیے آزادانہ طور پر اقدامات کرے گا اور وہ امریکا کی جانب سے دیے جانے والے دفاعی نظام ٹرمینل ہائی آلٹی چیوڈ ایریا ڈیفنس سسٹم (تھاڈ) کو جلد از جلد نصب کرے گا۔امریکی وزارت دفاع پینٹاگون نے بتایا کہ شمالی کوریا نے تازہ ترین تجربہ ملک کے شمالی حصے سے رات 11:43 بجے کیا۔امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کا بین البراعظمی میزائل امریکا کے لیے خطرہ ہے۔انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’امریکا شمالی کوریا کے بین البراعظمی میزائل (آئی سی بی ایم) کے تجربے کی سخت مذمت کرتا ہے۔ یہ آئی سی بی ایم امریکا، ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں، اور اس خطے اور دنیا کے لیے نیا خطرہ پیش کر رہا ہے۔
امریکا نے تصدیق کر دی ہے کہ شمالی کوریا نے بین البراعظمی میزائل کا تجربہ کیا ہے۔اس سے قبل امریکا نے شمالی کوریا کے میزائل تجربے کے معاملے پر غور و خوص کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی تھی۔یہ درخواست گذشتہ ہفتے شمالی کوریا کی جانب سے اس کے پہلے بین البراعظمی
میزائل تجربے کے دعوے کے بعد کی گئی ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ عالمی خطرے کو ختم کرنے کے لیے عالمی عمل کی ضرورت ہے۔انھوں نے خبردار کیا کہ اگر کسی ملک نے شمالی کوریا کو معاشی یا فوجی مدد فراہم کی یا سلامتی کونسل کی قرارداد پر مکمل عمل درآمد نہ کیا تو وہ ’ایک خطرناک انتظامیہ کی مدد کر رہے ہوں گے۔امریکی حکام کا خیال ہے کہ یہ دعویٰ ممکنہ طور پر درست ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب شمالی کوریا امریکی ریاست الاسکا کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ میزائل کسی ہدف کا درست نشانہ لگانے سے قاصر ہے۔شمالی کوریا کے ہمسایہ ممالک چین اور روس نے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنا جوہری پروگرام منجمد کر دیں۔اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے امریکا اور جنوبی کوریا سے بھی کہا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر فوجی مشقوں سے گریز کریں۔دونوں ملکوں نے امریکا سے کہا ہے کہ
وہ جنوبی کوریا میں تھاڈ میزائل نظام نصب نہ کرے۔ یہ نظام شمالی کوریا کی جانب سے آنے والے میزائل روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ اس کے میزائل دنیا میں کسی بھی جگہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے ذاتی طور پر اس تجربے کی نگرانی کی۔اس سے پہلے شمالی کوریا نے کہا تھا کہ اس نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ‘بین البراعظمی میزائل کا کامیاب تجربہ’ کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے پر ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے بظاہر شمالی کوریا کے سربراہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا: ‘اس شخص کے پاس زندگی میں کرنے کو کوئی اور کام نہیں ہے؟انھوں نے کہا کہ’یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ جنوبی کوریا اور جاپان زیادہ دیر تک صبر سے کام لیں گے۔ شاید چین زیادہ سختی سے حرکت میں آئے اور اس بیوقوفی کو ہمیشہ کیلئے ختم کر ڈالے۔اس کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ چین سے ‘بہت مایوس’ ہیں کیونکہ وہ شمالی کوریا کے اسلحے کے پروگرام کو روکنے کے لیے زیادہ کوشش نہیں کر رہا ہے۔انھوں نے ٹویٹ کیا کہ وہ چین کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ گوشہ گیر ملک کے متعلق کچھ نہ کرے۔خیال رہے کہ ان کا یہ ٹویٹ پیانگ یانگ کی جانب سے ایک ماہ میں دوسری بار بین براعظمی بیلسٹک میزائل کے تجربے کے ایک روز بعد آیا ہے۔بعد میں شمالی کوریا نے دعوی کیا کہ اب پورا کا پورا امریکا اس کے نشانے کی زد پر آ چکا ہے۔جبکہ سنیچر کو 2امریکی-1 بمبار طیاروں نے کوریا جزیرہ نما میں جنوبی کوریا اور جاپانی طیاروں کے ساتھ جنگی مشق کی اور امریکا کی پیسفک کمانڈ نے کہا کہ یہ مشقیں امریکا کا اپنے حلیفوں کے ساتھ ناقابل تسخیر عہد کے مظاہرے کا حصہ ہے۔امریکا نے یہ بھی دھمکی دی ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ شمالی کوریا کے خلاف ‘خاصی بڑی فوجی طاقت’ استعمال کر سکتا ہے۔شمالی کوریا کی جانب سے حالیہ میزائل کے تجربے پر بات کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نے کہا کہ امریکا پیانگ یانگ کے خلاف ایک نئی قرارداد پیش کرے گا۔
سفیر نکی ہیلی نے شمالی کوریا پرتجارتی پابندیاںعاید کرنے کی دھمکی بھی دی۔نکی ہیلی نے کہا کہ شمالی کوریا نے سلامتی کونسل کی جانب سے عائد کردہ پابندی کے باوجود بین البراعظمی میزائل (آئی سی بی ایم) کا تجربہ کیا تھا۔اقوام متحدہ میں امریکی سفیر ہیلی نے کہا کہ شمالی کوریا کا آئی سی بی ایم کا تجربہ ‘بہت تیزی سے کسی سفارتی حل کے امکان کا راستہ بند کر رہا ہے۔انھوں نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں کہاکہ امریکا اپنے اور اپنے اتحادیوں کے دفاع کے لیے اپنی مکمل صلاحیت استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔’ہماری صلاحیتیں ہماری خاصی بڑی فوجی طاقت میں ہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم انھیں استعمال کریں گے، تاہم ہم اس سمت میں جانے کو ترجیح نہیں دیتے۔فرانسیسی سفیر نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ فرانس بھی شمالی کوریا کے خلاف نئی قرارداد کے حق میں ہے، جس سے پابندیاں مزید سخت کی جائیں۔تاہم روس نے شمالی کوریا کے میزائل تجربے کے جواب میں اس کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ فوجی کارروائی کو ‘خارج کر دیناچاہیے۔
چین کے نمائندے نے کہا کہ بیجنگ کے لیے بھی شمالی کوریا کے اقدامات ناقابلِ قبول ہیں۔ تاہم انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چین اور روس دونوں کا مطالبہ ہے کہ امریکا جنوبی کوریا میں میزائل شکن نظام نصب نہ کرے اور یہ کہ دونوں ملک شمالی کوریا کے
قریب اپنی فوجی مشقیں بند کر دیں۔چین اور روس دونوں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین ہیں اور وہ شمالی کوریا کے خلاف کسی بھی نئی قرارداد کو ویٹو کر سکتے ہیں۔امریکی سفیر ہیلی نے کہا کہ امریکا ان ملکوں کے ساتھ تجارت منقطع کر سکتا ہے جو اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے باوجود شمالی کوریا کے ساتھ تجارت جاری رکھے ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا: ‘ہم کسی بھی ملک کا جائزہ لیں گے جو کسی قانون سے ماورا انتظامیہ کے ساتھ کاروبار کر رہا ہے۔
چین نے شمالی کوریا کے تجربے پر صرف مذمت کی تھی اور طرفین کو ضبط کا مظاہرہ کرنے کی بات کہی تھی۔مسٹر ٹر اپنے بیجنگ کے ردعمل پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے اور شمالی کوریا کے متعلق پالیسی پر امریکی چینی تجارت کو خسارے کا سودا بتایا ہے۔انھوں نے لکھا: میں چین سے بہت مایوس ہوں۔ ہمارے بے وقوف سابق رہنماؤں نے انھیں کروڑوں ڈالر تجارت میں کمانے کا موقع دیا لیکن وہ پھر بھی شمالی کوریا کے سلسلے میں ہمارے لیے کچھ نہیں کر رہا ہے، صرف باتیں بنا رہا ہے۔انھوں نے مزید لکھا: ہم اس کی اب اجازت نہیں دیں گے۔ چین با آسانی اس مسئلے کو حل کر سکتا ہے!’سرکاری ٹی وی نے تجربے کے بعد شمالی کوریا کے رہنما کو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دکھایا۔خیال رہے کہ صدر ٹرمپ اور ان کے چینی ہم منصب شی جنپنگ نے رواں سال کے اوائل میں شمالی کوریا کے متعلق بات چیت کی تھی جس کے بعد امریکی حکام نے کہا تھا کہ دونوں ممالک پیانگ یانگ پر لگام لگانے کے لیے مختلف آپشنز پر کام کررہے ہیں۔ لیکن اس کے بعد سے شمالی کوریا نے دو بین براعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔سنیچر کو تجربے کے بعد جنوبی کوریا نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ شمالی کوریا نے اس ٹیکنالوجی میں قابل قدر جدت حاصل کر لی اور یہ کہ اس کے میزائل کا تجربہ وقت اور جگہ کے لحاظ سے منفرد تھا۔جبکہ جاپانی وزیر اعظم شنزو اے بے نے کہا کہ ان کے ملک کو لاحق خطرہ سنگین اور اصلی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں