چینی کمیونسٹ پارٹی ۔۔۔ یہ سو برس کا قصہ ہے
شیئر کریں
سیاسی جماعتیں ہوں یا پھر انقلابی جماعتیں ۔بہر حال ایک بات طے ہے کہ عمریں دونوں کی مختصر ہی ہوتی ہیں۔یعنی زیادہ سے زیادہ 25 سے 30 برس ۔ عموماً دیکھنے میں یہ ہی آیا ہے کہ سیاسی جماعت کو اکثر و بیشتر اُس کا بانی رہنما اور اُس کا خاندان ہی ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر توڑ پھوڑ ڈالتا ہے ۔ نیز کبھی سیاسی جماعت کا ناقابل عمل گنجلگ منشور پوری جماعت کو ہضم کرجاتاہے ۔ جبکہ بعض اوقات درجہ دوئم کے کارکنان ہی اپنی سیاسی جماعت کے حصے بخرے اُدھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ تاریخ میں ایسی سیاسی و انقلابی جماعتیں بھی بے شمار ہو گرزی ہیں کو جو بدلتے ہوئے عالمی حالات کا شکار ہوکر بہت تھوڑی مدت میں ہی زیب ِ داستان سے قصہ پارینہ ہوگئیں ۔
لیکن دنیا کی سیاسی تاریخ میں ایسا تو شاذ و نادر ہی ہوا ہوگا کہ کوئی سیاسی یا انقلابی جماعت سو برس کا سنگ ِ میل اس چابک دستی سے عبور کرنے میں کامیاب ہوجائے کہ اُس جماعت کا منشور بھی قابل عمل رہے، کارکنان بھی ہمت ،جذبہ اور جوش سے عبارت رہیں ،جبکہ تمام چھوٹے بڑے رہنما بھی باہم یک جان ہوکر اپنی جماعت کوکئی دہائیوں تک اقتدار کی مسند جلیلہ پر پوری شان و شوکت سے متمکن رکھنے کے مشکل ترین ہدف کو باآسانی پالیں ۔ سردست دنیا بھرمیں ایک ہی ایسی سیاسی یا انقلابی جماعت ہے ،جس کے بارے میں مکمل دعوی کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ اُس جماعت میں مذکورہ بالا تمام سیاسی و انتظامی خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ جی ہاں! وہ غیرمعمولی سیاسی و انقلابی جماعت کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے دیرنہ دوست ملک چین کی برسراقتدار جماعت چینی کمیونسٹ پارٹی ہے۔ یکم جولائی 2021 کو یہ جماعت اپنے قیام کا صد سالہ جشن اِس فخریہ انداز میں منارہی ہے کہ عالمی اقتدار کے تاج کا حصول بھی اُس سے فقط دو، چار قدم کے فاصلے کی دوری پر رہ گیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف چائنا،جسے عرف عام میں چینی کمیونسٹ پارٹی بھی کہا جاتا ہے، یہ سیاسی جماعت بلاشرکت غیرے عوامی جمہوریہ چین کی بانی جماعت کے علاوہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اکلوتی حکمران سیاسی جماعت بھی ہے۔یاد رہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کو 1921 میں دو جگری دوستوں’’ چیف ڈوچی ‘‘اور لی دوظو ‘‘ نے دیگر 50 ہم خیال احباب کے ساتھ مل کر قائم کیا تھا۔اپنی مدتِ قیام کے تھوڑے عرصے بعد یہ جماعت چین کے طول وعرض میں مقبول ہوگئی اور 1949 کے دوران چینی کمیونسٹ پارٹی نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین میں برسوں سے برسراقتدار قوم پرست، کومتانگ حکومت کو برعظیم چین سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی دنیا کی سب سے بڑی مسلح افواج، پیپلز لبریشن آرمی کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ یا یوںکہہ لیں پیپلزلبریشن آرمی کا ہرسپاہی باضابطہ طور پر اس جماعت کا رکن ہوتاہے اور دیگر جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد پیپلزلبریشن آرمی میں شمولیت اختیار نہیں کرسکتے۔
نیز اس جماعت کو آج بھی سرکاری طور پر روسی مارکسی رہنما لینن کے وضع کردہ جمہوری مرکزیت کے اصول کی بنیاد پر منظم کیا جاتا ہے۔چینی کمیونسٹ پارٹی کا سب سے طاقت اور بالائی ادارہ قومی کانگریس کہلاتا ہے جس کا اجلاس ہر پانچ سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔ جب قومی کانگریس کا سیشن نہ ہو رہا ہو تو مرکزی کمیٹی کو سب سے زیادہ بااختیار سمجھا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ تیکنیکی طور پر قومی کانگریس کا اجلاس عام طور پر سال میں صرف ایک باربلایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ تر فرائض اور ذمہ داریاںچینی کمیونسٹ پارٹی کے ذیلی ادارے ’’پولٹ بیورو‘‘ اورا سٹینڈنگ کمیٹیوں کے پاس ہوتی ہیں۔ جن کی نیچے مستقل کمیٹیاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کا رہنما جنرل سیکریٹری کہلاتا ہے جوتمام تر سیاسی معاملات چلانے کا کلی اختیار بھی رکھتا ہے ۔اس وقت یہ عہدہ چینی صدر جناب شی جن پنگ کے پاس ہے۔ جنہیں اکتوبر 2012ء میں میں منعقد 18 ویں قومی کانگریس میں منتخب کیا گیا تھا۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کے آئین کے مطابق، پارٹی مارکس ازم، لینن ازم ، ماؤ زے تنگ کے فکری نظریات، دنگ شاوپنگ کے سیاسی نظریہ اور شی جن پنگ کے رہنما اُصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کے سالانہ اجلاس کو ملک کی سب سے اہم سیاسی سرگرمی تصور کیا جاتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے 100 سال پورے ہونے کے اہم ترین موقع پر صدر شی جن پنگ سنٹرل کمیٹی کے پلینری سیشن میں چین کے مستقبل کا پندرہ سالہ ترقیاتی منصوبہ پیش کرنے جارہے ہیں۔اس پندرہ سالہ ترقیاتی منصوبہ کو صدر شی جن پنگ نے وژن 2035 کا نام دیا ہے۔اہل مغرب خاص طور پر امریکا اس منصوبے سے شدید پریشان اور خوف زدہ ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ کی جانب سے پروپیگنڈ اکیا جارہاہے کہ چینی صدر شی جن پنگ وژن2035 کے منصوبے کو اپنی نگرانی میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔اگر چینی کمیونسٹ پارٹی کے حالیہ اجلاس میں اس فیصلہ کی باقاعدہ توثیق کردی جاتی ہے تو پھر شی جن پنگ عملاً چین کے تاحیات صدر بن جائیں گے۔ویسے بھی چینی کمیونسٹ پارٹی نے 2018 میں صرف دو بار صدر بننے کی پابندی ختم کردی تھی اور اس طرح چینی صدر شی جن پنگ کے عہدہ صدارت پر تاحیات برقرار رہنے میں کسی بھی قسم کی آئینی یا قانونی رکاؤٹ حائل نہیں ہے۔
یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر شی جن پنگ کا تاحیات صدر بننا یا نہ بننا ، جب سراسر چین کا داخلی کا معاملہ ہے تو پھر آخر کیوں امریکا یا اس کے اتحادی اس حوالے سے بار بار عالمی ذرائع ابلاغ میںاپنی تشویش اور پریشانی کا اظہار کررہے ہیں؟۔دراصل مغربی مفکرین کا اجماع ہے کہ گزشتہ چند برسوں میںچینی مفادات دنیا بھر میں جس تیزی اور سرعت کے ساتھ فروغ پذیر ہوئے ہیں، اُس میں سب سے زیادہ عمل دخل صدر شی جن پنگ کے غیر معمولی تجارتی فہم، سیاسی قابلیت اور منفردسفارتی حکمت عملی کا ہے۔اس لیے وہ سمجھتے ہیں طویل عرصے تک چین میں قیادت کے تبدیل نہ ہونے سے چین کو تجارتی ،سفارتی اور عسکری معاملات میں غیر معمولی استحکام میسر آ جائے گا۔ جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے چین کسی بھی وقت اچانک دنیا کی نئی عالمی طاقت ہونے کا باضابطہ اعلان کرسکتاہے۔
علاوہ ازیں بعض تجزیہ کاروں کو تو یہ بھی اندیشہ لاحق ہے کہ صدر شی جن پنگ اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد سب سے پہلے تائیوان کو کسی اچانک اور غیر متوقع مہم جو ئی کے ذریعے اپنے قبضہ میں کرنے کی کوشش کریںگے اور بعدازاں اُن کا اگلا ہدف بھارت کی سرحد سے متصل قدیم چینی علاقے تبت ، ہماچل پردیش، لداخ وغیرہ کو مکمل طور پر اپنے زیر نگیں لینا ہوگا ۔کیونکہ جدید چین کے عظیم رہنما ماؤزے تنگ اکثر عوامی اجتماعا ت میں سامعین کو اپنا دایاں ہاتھ کھول کر دکھاتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ’’میری ہتھیلی تبت اورہماچل پردیش،لداخ ،سکم ،ناگالینڈ اور میزا رام انگلیاں ہیں اور یہ مٹھی اَب اُس وقت ہی بند ہوگی جب یہ سارے علاقے چین کے قبضے میں آ جائیں گے‘‘۔یاد رہے چینی سب کچھ بھول سکتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی اپنے عظیم رہنما ماؤزے تنگ کی واضح ہدایات کو فراموش نہیں کرسکتے ۔ لہٰذا چاہے ساری دنیا اُلٹ پلٹ جائے لیکن چینی قیادت لازمی ماؤ کی زبان سے اداہوئے ایک ایک حرف کو عملی جامہ پہنا کر ہی اگلی دہائی میں قدم رکھنا چاہے گی۔تازہ ترین معروضی حالات بھی واضح اشارہ کررہے ہیں کہ چین کی جانب سے بھارت کے ساتھ اپنی متصل سرحد پر ہونے والے اچانک اور غیر معمولی نقل و حرکت کسی بھی وقت بھارتی افواج کا کڑا امتحان لے سکتی ہے۔
یکم جولائی 2021 کے بعد عالمی دنیا چین کو ایک نئے اور بہروپ میں ملاحظہ کرے گی۔ ماضی میں چین اپنی طاقت اور قوت کا اظہار فقط معاشی و تجارتی میدان میں کیا کرتا تھا۔ لیکن نیا چین اپنے حریف ممالک اور اُن کے اتحادیوں کے لیے عسکری محاذ پر بھی اَن گنت مشکلات پیدا کرتا ہوا دکھائی دے گا۔ دراصل گزشتہ پانچ ہزار سال سے دو جانور چین اور چینی قوم کی سب سے بڑی اور بنیادی شناخت رہے ہیں ۔ مثلاً معصوم ،سیدھا سادا ، گول مٹول ،ہنستا مسکرا تا ’’پانڈا ‘‘ چین کا قومی جانور کہلاتا ہے۔ جبکہ غصے سے پھنکارتا ، آگ برساتا اور آسمان کی وسعتوں میں اِدھر ،اُدھر پرواز کرتا ہوا’’ڈریگن ‘‘ چین کا مذہبی پرندہ ہے۔خوش قسمتی سے ابھی تک دنیا نے جس چین کا سامنا کیا تھا، وہ ’’پانڈا‘‘ کی عادات، اطوار اور دل موہ لینے والی خوبیوں سے مرقع تھا۔ مگر بدقسمتی سے آئندہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ’’ڈریگن ‘‘ جیسا طاقت ور، غصیلا اور جارح مزاج چین اپنے مقابلے پر کھڑا نظر آئے گا۔ اَ ب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ جو چین ’’پانڈا ‘‘ کے معصومانہ روپ میں ساری دنیا کی معیشت پر غلبہ پانے میں کامیاب رہاہے ، اَب جب کہ وہی چین ’’ڈریگن ‘‘ کی جون بدلے گا تو اُس کے سامنے کون سا حریف کتنی دیر تک ٹِک سکے گا؟۔میرے خیال میں اِس مسئلہ کی بابت ہم سے زیادہ چین کے حریفوں کو سوچنا اور فکر کرنا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔