اِس سے پہلے کہ دیر ہوجائے !
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
آزادی اظہار ہر شخص کا جمہوری حق ہے مگر پاکستان جیسے ترقی پذیرممالک کے اکثرحکمرانوں کا خیال ہوتا ہے کہ یہ حق عوام کانہیں اُن کا ہے وہ جس پر تنقید کریں تقاریر میں اِداروں یا حریف سیاستدانوں کو ہدفِ تنقید بنائیں اور اِس دوران چاہے جس حد تک چلے جائیں یہی صرف آزادی اظہار ہے اور جمہوری حق کے زمرے میں شمار ہوتاہے عام آدمی ایسا کرے یاصحافی حکومتی بداعمالیاں منظرِ عام پر لائیں تو یہ آزادی اظہار نہیں اور نہ ہی جمہوری حق ہے اِس لیے قدغن لگانا عین انصاف ہے۔ پنجاب حکومت نے بھی ہتک ِ عزت قانون بناکر دانشمندی کا ثبوت نہیں دیا۔مزے کی بات یہ کہ یہ نادر خیال ملک کے دیگر تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ،آزاد کشمیر کے وزیرِ اعظم اور گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ کے ذہن میں نہیں آیا۔ صرف پنجاب حکومت کو خیال آیا ہے کہ تنقید کا حق عام آدمی کو دینا غلط ہے۔ صوبائی وزیرِ اطلاعات عظمی بخاری جب اپوزیشن میں تھیں تو وزراء اور دیگر اربابِ اقتدار پر تنقید کے دوران نامناسب گفتگوبھی کر جاتی تھیں مگر خاتون جان کر اور اپوزیشن کا حق تصور کرتے ہوئے برداشت کیا جاتا ۔اب چونکہ وہ خود حکومت کا حصہ ہیں اِس لیے آزادی اظہار کوحکومتی کارکردگی کی راہ میں رکاوٹ تصورکرنے لگی ہیں اور چاہتی ہیں کہ حقیقت بیانی کی بجائے صرف حکومت کی تعریف وستائش کی جائے۔ یہ رویہ یا سوچ جمہوری نہیں اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ جو بھی کہا جائے ہتکِ عزت قانون کامقصد عام آدمی کو حکومتی کردار پر بات کرنے سے روکنااورصحافیوں کو تعمیری تنقید سے باز رکھنا ہے، اسی لیے تیس لاکھ کی شرط رکھی گئی ہے تاکہ خوف و ہراس کی فضا گہری کی جا سکے۔ اسی لیے جمہوری اور صحافتی حلقوں نے لے دے شروع کردی ہے ،جب سے یہ قانون پاس ہواہے میں تو تھر تھر کانپ رہا ہوں کہ جانے کب ہم جیسے کمزور لوگ حکومتی عتاب کا شکار ہوجائیں اسی لیے محتاط لکھتا ہوں ۔مقام ِ شکر یہ ہے کہ وزیرِ اطلاعات نے قانون میں یہ شق نہیں رکھی کہ آزادی اظہارکی بات کرنے والے کو اُٹھانے اور سبق سکھانے کے لیے پولیس کا الگ شعبہ ہوگا۔
پوری دنیا میں آزادی اظہار جیسے جمہوری حق کی جب آزادی ہے ایسے میں پنجاب حکومت ہتکِ عزت کا قانون بنا کر ذرائع ابلاغ کو جکڑنے میں مصروف ہے تاکہ نہ صرف اخبارات اورٹی وی چینلزکوکنٹرول کیا جائے بلکہ سوشل میڈیا جوکہ آزادی اظہار کی ایک نئی جہت ہے اس کے خلاف بھی قانونی کارروائی ممکن بنائی جا سکے۔ ایسی کوششیں ماضی میں بھی کارگر نہیں ہوئیں ۔اب بھی ناکامی نوشتہ دیوارہے۔ صحافتی تنظیموں نے یہ کہہ کر قانون مستردکر دیاہے کہ ہتکِ عزت کی آڑ میں میڈیا کو جکڑنے کاحکومتی مقصد پورانہیں ہوگا۔راقم کے خیال میں جس نے بھی پنجاب حکومت کو مشورہ دیا ہے، وہ نہ تو دانشمند ہے اور نہ ہی خیرخواہ ہے۔ اِس وقت جب مریم نواز پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ ہیں اور خاتون ہونے کے ناطے گھروں کے اندرجانے اور خواتین سے ہمکلام ہونے کی آزادی میسر ہے، نیز موبائل ہسپتال بنانے اور ائیر ایمبولینس سروس شروع کرنے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں، میں ہتکِ عزت جیسے قانون کاکوئی جواز نہیں تھا ۔بلکہ اِس ایک فیصلے نے حکومتی کامیابیاں اور نیک نامیاں دونوں کو ناکامیوں اور بدنامیوں میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ قانون منظوری کے لیے ابھی صوبائی گورنر کے پاس ہے جس کے متعلق اُن کی وضاحت آچکی کہ وہ صوبائی حکومت کو نظرثانی کا مشورہ دیں گے۔ جماعت اسلامی کے امیر نے بھی صحافیوں کے ساتھ مل کر تحریک کا عندیہ دیاہے۔ اسی لیے خدالگتی یہ ہے کہ جس نے بھی یہ قانون بنانے کی تجویز دی ہے۔ اُس نے حکومت کوکھائی میںدھکادیاہے جس کے مُضر اثرات کاحکومتی جماعت کوشایدبرسوں تک سامناکرناپڑے۔
پاکستان میں میڈیا کو دبانے اور کنٹرول کرنے کی کوششیں دہائیوں پر محیط ہیں جو وقتی پریشانی کا موجب تو بنیں مگراقتدار کی تبدیلی کے ساتھ ہی اپنی موت مر گئیں کیونکہ آزادی اظہار پر پابندیاں لگا کر ترقی کے اہداف حاصل کرناممکن نہیں اور نہ ہی حکومت اپنی ناقص کارکردگی اِس طرح چھپا سکتی ہے بلکہ جو بھی صحافی غیر ضروری تحسین و ستائش کرتا ہے، مالی فائدہ حاصل کر نے کے باوجودقارئیں میں ساکھ کھوبیٹھتا ہے نیز تحسین و ستائش کے دلدادہ حکمران اقتدار کے دوران عام آدمی سے دور ہوجاتے ہیں اورپھر اقتدار سے باہر ہوتے ہی عوامی قہرو غضب کا نشانہ بن کر سیاسی انجام کوپہنچ جاتے ہیں۔ جب غلطیوں کا احساس ہوتا ہے تب تک اِتنی دیر ہو چکی ہوتی ہے کہ مداوے کی کوئی صورت ہی نہیں رہتی۔ اب بھی اگر زرد صحافت کا خاتمہ مقصد تھا تو بہترہوتاصحافتی تنظیموں سے مشاورت کے بعد کسی ایسے طریقہ کارپر اتفاق کیا جاتا۔ جس سے آمرانہ ذہنیت کا تاثر اُجاگر نہ ہوتا۔ اب تو جبکہ مقبولیت کو متاثر کرنے کی طاقت میڈیا کے پاس ہے اور خاتون وزیرِ اعلیٰ عوامی بھلائی میں مصروف ہیں۔ اُنھیں اصل فرائض کے بجائے ہتکِ عزت جیسے غیر ضروری اور سیاہ قانون کو ہی مسائل کے حل کے لیے ضرروی کا یقین دلانے والا جو بھی ہے اُسے مخالف جان کر حکومتی صفوں سے نکال دینا چاہیے کیونکہ حمایت کی آڑ میں وہ ایک دشمن کی طرح حکومتی مقبولیت کونقصان پہنچارہاہے ایسے کام کرنے سے قبل پیشِ نظر رکھنے والی بات یہ ہے کہ جب بڑی طاقتیں بھی میڈیا کی آزادی پر متفق ہیں اور سوشل میڈیا کو قابو کرنے میں بے بس ہیں تو پنجاب حکومت بھلا کس کھیت کی مولی ہے جو وہ بیک وقت بارہ کروڑ پر مشتمل صوبے کو اپنی پسند کے مطابق چلا سکے غیر ضروری کاموں میں الجھنے سے سے حکومتی صلاحتیں ضائع اور عوام متنفر ہوگی، نیزمیڈیا کی مخالفت کاالگ سامنا ہو گا۔
1958میں ایوب خان نے مارشل لاء لگاتے ہی جمہوری سرگرمیوں اور آزادی اظہار پر پابندیاں لگانے کاسلسلہ شروع کیا اسی سوچ کے تحت 1963میں پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس جاری کیاگیا جسے متحدہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے کالا قانون قراردیتے ہوئے سخت مزاحمت کی متحدہ پاکستان کی تقلید میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے دونوں حصوں نے پی پی اوز نافذ کیے پریس اینڈ رائٹس کے تحت کون سی خبر شائع کرنی ہے اور کون سی روکنی ہے کے متعلق حکومت کی طرف سے باقاعدہ پریس ایڈوائس جاری کی جاتی لیکن ناقدین کو قابونہ کیا جا سکا۔ اسی لیے بعد ازاں نیشنل پریس ٹرسٹ بنا کر نجی شعبے کے اخبارات و جرائد کو حکومتی قبضے میں لیناپڑا جو بھی اخبار حکومتی ہدایت کے مطابق خبریں شائع نہ کرتا اس کو اشتہارات نہ دے کر سزادی جاتی اور بیرونِ ملک سے درآمد کیے جانے والے اخباری کاغذ کاکوٹہ کم کردیاجاتا لیکن تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ ایوب خان نے 1968 میں جب دس سالہ ترقی کا جشن منانے کا اعلان کیا تو احتجاج کے ایک ایسے لامتناہی سلسلے نے جنم لیا جس نے ثابت کردیا کہ اخبارات و ٹی وی کے ذریعے سب اچھا ہے لکھنے اور سنانے کی جھوٹی تدابیر کارگر نہیں ہوتیںحالانکہ اِس سیاہ دورمیں چند اخبارات ہی محدود پیمانے پر تنقید کرتے تھے نجی شعبہ میں کوئی ٹی وی بھی نہ تھاحالات نے ایوب خان کو اِس حد تک مجبورکردیا کہ وہ سیاستدانوں سے بات کرنے پر آمادہ ہوئے حالات کو اِس نہج پر لانے میں ذرائع ابلاغ کے جاندار کردار کو جھٹلایا نہیں جا سکتا 1973 کے آئین میں آزادی اظہارکو تحفظ دیا گیا ہے، جب ذوالفقار علی بھٹو تنقید سُننے اور اختلافِ رائے برداشت نہ کر سکے تو تنقید کی ایسی لہر چلی کہ مقبولیت کھوکر عوامی غیض وغضب کا شکار ہوگئے ۔ضیاالحق نے مارشل لاء لگایا اور ذرائع ابلاغ کوپابندیوں میںجکڑنے کی کوششیں کیں لیکن صحافیوں نے ظلم و تشدد سہنے کے باوجود سچ لکھنے کی روش ترک نہ کی بلکہ حق گوئی کی پاداش میں گرفتاریوں اور سزائوں کا سامنا کیانواز شریف اور بے نظیر ادوار میں بھی صحافیوں کو دبائو کا سامنارہا۔ پرویز مشرف کے دور میں نجی شعبے کوٹی وی لائسنس جاری کیے گئے لیکن جلد ہی وہ بھی آزادی اظہار سے بیزار ہو گئے اور تنقید کو قابل ِ گرفت میں لانے کے منصوبے بنانے لگے مگرجب اقتدار سے باہر ہوئے تو صحافیوں سے مددطلب کرتے رہے ۔نواز شریف اور بے نظیرکی جلاوطنی ختم کرانے اور وطن واپس آنے کی راہ ذرائع ابلاغ نے ہی ہموار کی۔ اِس کے باوجود پنجاب حکومت کا ہتکِ عزت کا قانون پاس کرنا ناقابلِ فہم ہے۔ اِس سے پہلے کہ دیر ہوجائے اور صحافی متحدہوکر سڑکوں پر آجائیں اور اپوزیشن بھی ساتھ مل جائے۔ پنجاب حکومت کو کارکردگی پر توجہ دینی چاہیے ناکہ تحسین و ستائش سُننے کا بندوبست کرنے پر۔