میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان اور ترکی کے تعلقات سیاسی تبدیلیوں سے بالاتر ہیں، وزیراعظم

پاکستان اور ترکی کے تعلقات سیاسی تبدیلیوں سے بالاتر ہیں، وزیراعظم

ویب ڈیسک
بدھ, ۱ جون ۲۰۲۲

شیئر کریں

وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان اور ترکی کے درمیان مثالی تعلقات کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکی گزشتہ 75 برسوں سے ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں، دونوں ممالک کے تعلقات سیاسی تبدیلیوں سے بالاتر ہیں،بھارت کو اگست 2019 کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرکے اور بات چیت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرکے تعلقات کو معمول پر لانے کی ذمہ داری اٹھانا ہوگی،سیاسی حل اور بات چیت پر یقین رکھتا ہوں، ،پی ٹی آئی کو چارٹر آف اکانومی پر بات چیت کی دعوت دی ہے ۔ترکی کے 3 روزہ دورے سے قبل ترک خبر رساں ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہاکہ پاکستان اور ترکی گزشتہ 75 برسوں سے ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ تاریخی تعلقات مشترکہ مذہبی، ثقافتی اور لسانی روابط پر مضبوطی سے قائم ہیں اور دونوں جانب سیاسی تبدیلیوں سے بالاتر ہیں۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر یکساں خیالات رکھتے ہیں اور دوطرفہ، علاقائی اور کثیر جہتی فورمز پر قریبی تعاون کرتے ہیں، انہوں نے مسئلہ کشمیر پر اصولی حمایت پر ترک قیادت کا شکریہ بھی ادا کیا۔وزیر اعظم نے کہا کہ ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے عوام کے درمیان روابط اور ثقافتی تعلقات بلندی کی جانب گامزن ہیں، پاکستان اب اقتصادی تعاون بڑھانے پر توجہ دے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کی موجودہ سطح اب بھی ہمارے تعلقات کی بہترین حالت کا صحیح عکاس نہیں ہے، یہ ایک ایسا پہلو ہے جہاں دونوں ممالک کے لیے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ انہوںنے کہاکہ یہاں اپنے دورے کے دوران میں ترکی کی معروف کاروباری کمپنیوں سے ملاقات کر رہا ہوں تاکہ توانائی، انفراسٹرکچر، ای کامرس، میونسپل ایگرو بیسڈ انڈسٹری اور آئی ٹی کے شعبوں سمیت مختلف شعبوں میں پاکستان میں موجود بے پناہ مواقع سے استفادہ کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جا سکے‘۔بھارت کے ساتھ تجارت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو باہمی طور پر فائدہ مند تجارت سے بہت کچھ حاصل کرنا ہے تاہم پاکستان نے 5 اگست 2019 کے بعد بھارت کے ساتھ تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا تھا جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی خودمختاری کو ختم کردیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم ان معاشی فوائد سے بخوبی واقف ہیں جو بھارت کے ساتھ ایک صحت مند تجارتی سرگرمی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں تاہم کشمیری عوام پر مسلسل ظلم و بربریت، مقبوضہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوششوں اور بھارت کی جانب سے کشمیریوں کے حقوق سے مسلسل انکار کے تناظر میں یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ تجارتی محاذ پر پیش رفت ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کو اگست 2019 کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرکے اور بات چیت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرکے تعلقات کو معمول پر لانے کی ذمہ داری اٹھانا ہوگی۔جب وزیر اعظم سے ایشیا پیسیفک خطے کے بارے میں امریکا کی پالیسی میں پاکستان کی حیثیت سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ اور وسیع البنیاد تعلقات ہیں۔انہوں نے امریکا کے ساتھ پاکستان کی اپنے تعلقات کو گہرا اور وسیع کرنے کی خواہش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب سے بڑی برآمدی منڈی اور سرمایہ کاری اور آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں