مٹھی بھر اشرافیہ کی خواہشات انرجی سیکٹر پر بوجھ
شیئر کریں
پاکستان کی انرجی ڈیمانڈ اور بیسک ڈیمانڈ میں بڑا فرق موجود ہے، گزشتہ 6 سال کا ڈیٹا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی انرجی ڈیمانڈ گرمیوں کے عروج پر 30ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے، جو کہ سردیوں کے دوران محض 12 ہزار 3 سو میگاواٹ ہوتی ہے، جس کی بنیادی وجہ گرمیوں میں ایئرکنڈیشنز کا بڑھنے والا استعمال ہے، تاہم، پاکستان میں ایئرکنڈیشن بہت کم لوگ استعمال کرتے ہیں اور پاکستانیوں کی اکثریت غربت کی وجہ سے ایئرکنڈیشن استعمال نہیں کرسکتی۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 37.2 ہے جبکہ 24.8 فیصد عوام کو نکاسی ا?ب کی سہولیات بھی حاصل نہیں، 9.3 فیصد افراد بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ ایسے میں اشیائے تعیشات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔اس کے علاوہ ایک اندازے کے مطابق جاری کی گئی بجلی میں سے بلوں کی صورت میں 71 فیصد وصولی ہوپاتی ہے، جو سرکولر ڈیبٹ بڑھنے کی اہم وجہ ہے، ہر آنے والی حکومت سرکولر ڈیبٹ کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن اس پر قابو پانے میں ناکام نظر ا?تی ہیں، 2013 میں سرکولر ڈیبٹ 450 ارب روپے تھا، جو 2018 میں بڑھ کر 1,148 ارب روپے ہوا، اور مارچ 2022 میں یہ 2,467 ارب روپے کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔سرکولر ڈیبٹ پاکستان کی جی ڈی پی کا 3.8 فیصد اور قرضوں کا 5.6 فیصد ہوچکا ہے۔ اگر موثر اقدامات نہ کیے گئے تو 2025 تک سرکولر ڈیبٹ چار ٹریلین روپے تک پہنچ جائے گا۔ سردیوں اور گرمیوں کے درمیان اس بجلی کی ڈیمانڈ کا یہ نمایاں فرق واضح کرتا ہے کہ حکومت نے مٹھی بھر اشرافیہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اضافی پیداواری صلاحیت کے حامل پاور جنریشن پلانٹس لگا رکھے ہیں، جس کی وجہ سے غیر استعمال شدہ بجلی کا بوجھ بھی سرکاری خزانے کو برداشت کرنا پڑتا ہے.