میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مزدوروں کے سپاہی

مزدوروں کے سپاہی

ویب ڈیسک
پیر, ۱ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

ڈاکٹر جمشید نظر

۔۔۔۔۔۔۔۔
شکاگواپنی بلند ترین عمارات کے باعث دنیا بھر میںجانا جاتا ہے۔یہ آبادی کے لحاظ سے امریکہ کا تیسرا بڑا شہر ہے جسے سن 1833میں عظیم جھیلوں کودنیا کے تیسرے بڑے دریا ”دریائے مسیسپی”کے نظام کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔شکاگو کی سڑکوں اور بلندو بالا عمارتوں کے نیچے ان ہزاروں مزدوروں کا خون بہہ چکا ہے جنھوں نے اپنے حق کی آواز بلند کی تھی۔یہ کہانی انیسویں صدی کی ہے جب شکاگوا یک نیا صنعتی شہر بن رہا تھا یہاں مختلف ممالک سے آئے ہزاروں کی تعداد میں مزدور کام کرتے تھے جن کی زبان اور مذہب مختلف تھا۔مزدوروں سے 10سے اٹھارہ گھنٹے کام کروایا جاتا اور بدلے میں بہت معمولی دیہاڑی دی جاتی تھی۔ سرمایہ داروں اور فیکٹری مالکان کا وہاں اس قدر رعب اور دبدبہ تھا کہ مزدوروں کے خلاف کی جانے والی زیادتی پرکسی حکومتی ادارے کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ہمت نہ تھی ، ان دنوں چند اخبارات بھی شائع ہوتے تھے لیکن وہ بھی سرمایہ داروں کے خلاف لکھنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ سرمایہ داروں نے مزدوروں کے درمیان اپنے جاسوس بھی چھوڑ رکھے تھے تاکہ انھیں اطلاع ملتی رہی کہ مزدور احتجاج تو نہیں کررہے۔سرمایہ داروں نے غنڈے بھی پال رکھے تھے اگر کوئی مزدور احتجاج کرنے کا سوچتا تو غنڈے بھیج کر اس پر تشدد کروایا جاتا اس مقصد کے لئے پولیس کو بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ مزدور کسی احتجاج کا حصہ بننے لگتے تو ان سب کو نکال دیا جاتا تھا۔ ان سخت حالات کے باوجود مزدور ایک یونین بنانے میں کامیاب ہوگئے جس کا نام تھا (Knights of labor) یعنی مزدوروں کے سپاہی۔ابتداء میں اس یونین کے اراکین کی تعداد 28ہزار تھی جو بعد میں آٹھ لاکھ تک پہنچ گئی۔Knights of laborیونین کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ ان سے آٹھ گھنٹے کام لیا جائے انھوںنے ایک اشتہار بھی شائع کروایا۔ مزدوروں کی قائم ہونے والی دیگر ٹریڈ یونینز بھی ”Knights of labor”یونین کے ساتھ مل گئیں اور ایک فیڈریشن بنائی گئی جس کا نام تھا” Fedration of organized trade labor unions” اس فیڈریشن نے بھی مزدوروں کے کام کے اوقات آٹھ گھنٹے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یکم مئی سن1886میں امریکہ بھر میں پانچ لاکھ مزدوروں نے مکمل ہڑتال کرتے ہوئے پرُامن مظاہرے کئے ،ادھر سرمایہ داروں کو خدشات پیدا ہونے لگے کہ اب مزدور ان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں انھوں نے مزدوروں کو ڈرانے اور مظاہروں سے باز رکھنے کے لئے 3مئی کو ایک ہونے والے مظاہرے پرپولیس کے ذریعے فائرنگ کروادی جس کے نتیجہ میں چھ مزدور ہلاک ہوگئے۔
اس واقعہ کے بعد مزدور وں نے راتوں رات پچیس ہزار اشتہار چھپواکر تمام مزدوروں کو اگلے روز شام ساڑھے سات بجے (Haymarket Square) یعنی بھوسے کی مارکیٹ کے پاس اکٹھے ہونے کی ہدایت کی۔پروگرام کے مطابق اگلے روز وہاں تین ہزارمزدور اکٹھے ہوگئے ، ہلکی بارش کے دوران بھی مزدوروں نے مظاہرہ جاری رکھا۔اچانک پولیس کی بھاری نفری نے وہاں دھاوا بول دیاکسی مزدور نے ایک بم پولیس کی طرف پھینکا جس کے بعد پولیس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجہ میں سینکڑوں کی تعداد میں مزدوروں کو گولیاں لگیں اور تقریبا چار ہزار مزدور ہلاک ہوگئے ۔ مزدوروں کے ہاتھوں میں سفید جھنڈے ان کے خون سے سرخ ہوگئے اسی وجہ سے سرخ جھنڈا آج مزدوروں کاجھنڈاکہلاتا ہے۔اس واقعہ کے اگلے روز مزدوروں نے ہلاک ہونے والے مزدوروںکی خون میں لت پت شرٹیں شکاگو کے گلی محلوں اور چوراہوں پر لٹکا دیں۔بعد میں پولیس نے آٹھ مزدور یونین لیڈروں کو پکڑ کر جھوٹا مقدمہ کرکے انھیںموت کی سزا سنا دی جس میں سے ایک مزدور نے خود کشی کرلی۔اس تاریخی واقعہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ مزدوروں کے کام کے اوقات آٹھ گھنٹے ہوگئے اور یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جانے لگالیکن ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل یہ دن نہیں مناتا۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں