میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیپلز پارٹی اور پاکستان کا اندورنی خلفشار

پیپلز پارٹی اور پاکستان کا اندورنی خلفشار

ویب ڈیسک
اتوار, ۱ مئی ۲۰۲۲

شیئر کریں

رفیق پٹیل

 

موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں ایک نیا بحران پیدا ہوچکا ہے جس کے فوری خاتمے کے آثار نہیں ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کو اس میں کس حد تک آگے بڑھنا چاہیے تاکہ اس کی ساکھ کو نقصان نہ ہو یہ ایک اہم سوال ہے سپاکستان کے موجودہ حالات میں سابقہ اپوزیشن او ر موجودہ حکومتی اتحاد نے عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد کثیر الجماعتی اتحاد کی حکومت تشکیل دے کر اپنی اپنی جماعتوں کو نقصان پہنچایا ہے اور مدمقابل تحریک انصاف کو ہر نئے دن اپنی عوامی طاقت میں اضافے کا موقع فراہم کردیا ہے جس کے واضح اشارے موجود ہیں پاکستان پیپلزپارٹی کے حامی پنجاب میں عمومی طور پرمسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد سے خوش نہیں ہوتے یہی حال مسلم لیگ ن کے نچلی سطح کے حامیوں کاہے جو پیپلز پارٹی سے اتحاد پر خوش نہیں ہیں اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں کی ہے جہا ں کارکن اپنی جماعت کے علاوہ دیگر جماعتوں کے ساتھ چلنے پر دل بردا شتہ ہیں جس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہورہا ہے یہ تسلیم کرنا ہوگاکہ پی ٹی آئی کی صفوں میں حکومت کھو کر بھی جوش اور ولولہ ہے حکومتی اتحاد کے کارکنوں میں عمومی طور پر حکومت حاصل کرکے بھی مایوسی اور لاتعلقی ہے عمومی طور پر اتحادمیں سب سے بڑی جماعت دیگر چھوٹی جماعتوں کے کارکنوں کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور اس کی سیاسی طاقت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اس کی واضح مثال 1988 کاسابقہ اسلامی جمہوری اتحاد ہے جس میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمیعت طلبہ کے کارکنوں کی بڑی تعداد مسلم لیگ ن کے ساتھ جاملی تھی اسی طرح دیگر جماعتوں کے کارکن بھی مسلم لیگ ن سے جاملے تھے جب وہ اتحاد ختم ہوا تو اس وقت چھوٹی جماعتو ں کو بعد میں احساس ہوا کہ وہ بے شمارموثر کاکن جو دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت فراہم کر سکتے تھے وہ مسلم لیگ ن سے جاملے ہیں اس مرتبہ صورت حال نسبتاً اس لیے مختلف ہے کہ عدم اعتاد کے بعد حکومتی اتحاد کو پذیرائی نہیں ملی ہے جب تک تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے کی جدوجہد کامرحلہ اور احتجاجی جلسے جلوس تھے اس وقت تک موجودہ حکومتی اتحاد اور سابقہ اپوزیشن کے کارکنوں کا جوش کسی حد تک برقرار تھا جو اب موجود نہیں ہے ایک اور مثال متحدہ مجلس عمل کی بھی ہے اتحاد میں بھی سب سے زیادہ فاعدہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علماء اسلام کو ہوا اور جماعت اسلامی کو نقصان ہواتھا ہوسکتاہے کہ انتظامیہ اور پولیس مدد سے پی ٹی آئی کو دبانے کے اقدامات کیے جائیں لیکن اس کے نتائج انتخابات میں اچھے نہیں ہوتے نہ ہی حکمراں جماعتوں کے حامیوں میں اسے پذیرائی مل سکتی ہے ۔
اس وقت صورت حال انتہائی خراب ہے پاکستان پیپلز پارٹی ہی موجودہ اتحاد کی سب سے جمہوری جماعت ہے جس کے پاس آئندہ کا م کرنے اور ملکی سطح پر اسے موثر بنانے کا موقع موجود ہے اسے اپنی تنظیم میں ردوبدل کرنا ہوگا اسے بہتر بنانا ہوگا ملک بھر میں ایسے بے شمار جمہوریت پسند،روشن خیال اور ترقی پسند کارکنوں کی تعداد موجودہے جسے پیپلز پارٹی ساتھ ملا کر ایک مرتبہ پھر بہت بڑی سیاسی قوت بن سکتی ہے ممکن ہے اس حکومتی اتحاد میں شمولیت اس کی مجبوری ہو لیکن اگرپیپلز پارٹی کا اپنا تشخص مجروح ہوا تو یہ ایک بہت بڑا نقصان ہوگا ایک قومی سطح کی سیاسی جماعت جو ایک صوبے تک محدود ہو چکی ہے وہ جلد بازی میں اپنا مستقبل دائو پر لگا رہی ہے یا وہ حالات کا صحیح اند ازہ نہیں لگا رہی ہے کم از کم بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ بنانا اتنی بڑی غلطی ہے جس کا پارٹی صحیح تجزیہ نہیں کرسکی ہے اس وقت پاکستان پر چین کا شدید دبائو ہے وہ بعض کالعدم تنظیموں کا جڑ سے خاتمہ چاہتا ہے جس کے لیے ایک بڑے آپریشن کی ضرورت ہے بھارت کی امریکا سے قربت بڑھ رہی ہے وہ بھی پاکستان پر اپنا دبائو بڑھا رہا ہے افغانستان سے پاکستان پر مسلسل حملے ہورہے ہیںایران سے بھی تعلقات محدود نوعیت سے آگے جانا آسان نہیں ہے روس کی جانب قدم بڑھانا امریکہ کی ناراضگی کا سبب بنے گا یہ اس قدر مشکل صورت حال ہے کہ پوری قوم مل کر ہی اس سے باہر نکل سکتی ہے موجودہ سیاسی کشید گی میںوزیرخارجہ بن جانے سے ہر وقت دبائو کا سامنا کرنا ہوگا اور اپنی مقبولیت کو کم کرنا ہوگا خصوصاً اس وقت جب پا رٹی پنجاب میں اپنے قدم نہیں جا سکی ہے یہ فیصلہ پارٹی کے مفاد میں نظر نہیں آتابلاول بھٹو کے لیے پارٹی سربراہ کی حیثیت میں مستقبل کا مقبول وزیر اعظم بننا ہی پیپلز پارٹی کے لیے بہتر ہوتاوہ ابھی نوجوان ہیں ابھرتی ہوئی قیادت ہیں اس سفر کے ابتدائی مراحل میںسوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
آج تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ انہوں نے واضح اکثریت کے بغیر اتحادیو ں کی مددسے وزیر اعظم بن کر غلطی کی تھی آج پیپلز پارٹی کو پاکستان کی سب سے بڑی عوامی قوت بنانے کی کوشش کی اس لیے ضرورت ہے اس کا ایک ایسا ماضی ہے جس نے پاکستان میں ایک عوامی جمہوری سیاست کی بنیاد رکھی تھی اس مقصد کے لیے پارٹی کی تنظیم میں بہتری اور بھرپور عوامی مہم کے ذریعے پارٹی کو 1970والی سیاسی جماعت بنانا ہوگا موجود اتحادی حکومت کا دفاع کرنے سے پارٹی کووہ مقبولیت حاصل نہ ہو سکے گی آہستہ آہستہ مخلص کاکن مایوس ہونگے اور بحیثیت مجموعی کارکنوں کا حوصلہ کمزور ہوگا ایسی کیفیت میں پارٹی کے حامی متبادل سیاسی جماعتوں سے روابط استوار کرتے ہیںشہید محترمہ بے نظیر بھٹو اس بات کا خاص خیال رکھتی تھیں وہ اعلٰی سطحی روابط اور مقتدرحلقوں سے اپنے موقف کو منوانے کی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ عوام میں اپنی پارٹی کی ساکھ کوبرقرار رکھنے پارٹی کی تنظیم کے معاملات کا نچلی سطح تک جائزہ لینے کے اقدامات کو نظر انداز نہیں کرتی تھیںانہیں ہزاروں کارکاکنوں کے نام زبانی یاد تھے تنظیمی عہدیداروں سے ان کے روابط ہر وقت برقرار رہے پارٹی کے کا رکنوں کوشہید محترمہ کی بے شمار صلاحیتوں میں دیگر باتوں کے ساتھ ان کی یہ بات آج بھی یاد ہے پاکستان کے موجودہ حالات ایسے ہیں کہ وقت گذرنے کے ساتھ حکمراں اتحاد کی مقبولیت میں کمی آتی جائے گی یا جلد ہی ایک نئی حکومت اس کی جگہ حاصل کرلے گی جس کا دورانیہ طویل ہوسکتا ہے اس کے امکانات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں حالات کی خرابی کی صورت میں موجودہ جمہوری نظام کو نقصان ہو سکتاہے جو پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کے مفا د میں نہ ہوگاپیپلز پارٹی کو اپنا کام اس طرح کرنا ہوگا کہ موجود ہ حالات کی خرابی کی صورت میں اس کے منفی اثرات سے پارٹی کو نقصان نہ ہو کیونکہ نئے حکمراں اتحاد کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے یہاںتک کے پی ٹی آئی کو سیاسی عمل سے باہر بھی کردیا گیا تو ماحول سازگا ر نہ ہوگا مزید خرابی کا امکان موجود رہے گا اس لیے پی پی کی قیادت کو پارٹی کو اولیت دینی ہوگی حکومت اپنی جگہ ضروری ہے لیکن اس کی حیثیت ثانوی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں