زبیر عمر کو گورنری مبارک!!آئین کی بالادستی ضروری
شیئر کریں
یہ شہر کراچی ہے جو صوبہ سندھ کا چہرہ اور آئینہ ہے اس شہر بلکہ صوبے کے عوام بے شمار مسائل کی زنجیروں میں جکڑی پڑی ہے، بدامنی، مہنگائی اور دہشت گردی پورے زور کے ساتھ اپنا کردار ادا کررہی ہے، یوں تو پورا ملک مسائل اور باہمی ریشہ دوانیوں کے طوفانوں میں گرا ہوا ہے لیکن یہ دیگر شہروں سے زیادہ افرا تفری کی زد میں رہتا ہے جو بھی حکومت آئی وہ کامیابی حاصل نہ کرسکی، یہ ہماری اور ہمارے عوام کی بد قسمتی رہی کہ ہماری ترقی اور خوشحالی کی صبح نہ ہوسکی۔ نئے گورنر کی تشریف آوری پر عوام خوش تو ہےں کہ شائد ہماری سیاہ رات ختم ہوجائے۔
لیکن میں تو سمجھتا ہوں اور یقینا آپ بھی سمجھ رہے ہونگے کہ جس ملک کا نظام اور آئین صحت مند اور طاقتور نہیں ہوتا وہ ہمیشہ پستی اور بد امنی کا شکار رہتا ہے، بحیثیت گورنر آپ نے آئین کو طاقتوربنانا اور اس طاقت سے آپ نے کام لینا ہے تاکہ اس شہر کے وقار کا پرچم بلند ہوسکے۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ عوام کے روشن مستقبل کی شمع آئین اور قانون کی دہلیز پر چمکتی ہے، آپ پر وقت اور حالات نے بڑی بھاری بھرکم ذمہ داریاں ڈال دی ہیں۔ اس لیے اس ضرورت کو محسوس کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بلا تخصیص ہم آہنگ ہوکر اپنا کردار ادا کریں، عوام آج کسی سیاسی نہیں بلکہ آئینی سربراہ کی تلاش میں تھے اور اُس کا راستہ بھی دیکھ رہے ہےں۔ اور اس حقیقت کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا کہ فی زمانہ سیاست اپنا وہ سیاسی راستہ بھول چکی ہے جو کامیابی کی منزل کی طرف جاتا ہے، سیاستدان اس قدر آپس میں دست و گریباں ہیں کہ عوام کی تمام امیدیں دم توڑچکی ہیں۔ محمد زبیر عمر صاحب! ہمیں امید تو ہے کہ آپ اپنے آئینی کردار کی نئی اور منفرد تاریخ رقم کریں گے، اور عوام کو نوید سحر ضرور دیں گے۔ اور اگر آپ نے اپنے آئینی اور منصبی کردار کو رائج سیاسی روایت سے باہر اور دور رکھا تو عوام کے ہاتھ بارگاہ الٰہی میں اُٹھ جائیں گے اور آپ کی سلامتی اور درازی¿ عمر کی دعائیں ہوتی رہیں گی۔ ابھی تو آپ اپنے منصب پر براجمان ہوئے ہیں ، آپ نے حالات کی نبض پر ہاتھ ہلکا رکھنا ہے یا نظریہ ضرورت کے لیے اس پر ہاتھ ڈالنا ہے، یہ تو وقت خود بتائے گا۔ لیکن عوام کی طاقت بہر حال طاقت ہے، ہم آپ کے ہم قدم ہونے کا عہد اور وعدہ کرتے ہیں۔ چونکہ اس وقت ہماری سیاست کمزور اور اپاہج ہوچکی ہے اور جو ہمیں روشن اور بہتر دروازہ دکھائی دے رہا ہے اس پر دستک دینا ہم اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں، آپ کے آئینی کردار میں یہ ذمہ داری موجود ہے کہ آپ عوام کا کھویا ہوا وقار بحال کریں اور اس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے وہ کارنامہ سر انجام دے سکیں جس کے لیے عوام نظریں جمائے بیٹھے ہےں اور یہ فطری ضابطہ ہے کہ حاکم کے عدل پراگر قوم راضی ہے تو خدا راضی ہے اور اگر عوام ناراض ہے تو خدا بھی ناراض ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہ راستہ دکھائے جو کامیابی اور عزت کی معراج کی طرف جاتا ہے۔
٭٭