میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
این آر او کا امکان ؟

این آر او کا امکان ؟

منتظم
پیر, ۱ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

حمید اللہ بھٹی
لوگ شریفیہ مشکلات کو دیکھتے ہوئے این آر اوکے امکان کی بات کرتے ہیں تو سچ جانئے مجھے ہنسی آتی ہے کیونکہ اب حالات ایسے کسی کام کے لیے سازگار نہیں۔ آئین بحال ہے کسی خلاف ورزی کی صورت میںمحاسبہ کے لیے بااختیار عدلیہ موجود ہے پرویز مشرف کی طرح کوئی فرد کُلی اختیار کا دعویٰ نہیں کر سکتا جس کی روشنی میںکوئی این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں مگر ہمارے ملک میں راتوں رات جماعتیں بنتی اور ٹوٹتی رہی ہیں اسی لیے لوگ خدشات کا شکار رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ا سٹیک ہولڈر سیاسی ٹھہرائو لانے کے لیے معافی تلافی تک جا سکتے ہیں مگر میرے خیال میں ایسا کوئی امکان نہیں جس کی کئی وجوہات ہیں ۔

میاں شہباز شریف کی اچانک سعودی عرب روانگی کو آصف زرداری اور عمران خان این آر او کی جدوجہد قرار دے رہے ہیں جوایسی باتیں کرنے والوں کی تھیوری کو تقویت دیتی ہے کہ ممکن ہے کچھ لو کچھ دو کے فارمولے پر اتفاق کرنے کی بات ہو رہی ہومگر ایسی باتوں میں مجھے کوئی صداقت معلوم نہیں ہوتی۔ ملک کے دوبڑے سیاستدانوں کا ایسی باتیں کرنا جذباتی پن کے سوا کچھ نہیں۔ عمران خان آج تک اقتدار کی وادی میں چہل قدمی نہیں کر سکا اِس لیے اُس کا جذبات کی رو میں بہہ جانا سمجھ میں آتا ہے ۔جلسوں میں خطاب کرتے ہوئے بھی وہ کچھ ایسا ہی طرزعمل اپناتے ہیں جو اکثر لوگوں کو کھٹکتا ہے جس کی بنا پر اُن کا امیج پختہ کار سیاستدان کا نہیں بن سکا مگر آصف زرداری کو کیا ہو گیا ہے جو اِدھر اُدھر کی ہانکنے لگے ہیں۔ محترمہ بے نظیربھٹو کے حکومتی ادوار سے لیکر اب تک اقتدار کے مراکز سے اُن کا قریبی واسطہ ہے اگر وہ بھی جذبات کی رو میں بہہ کر زمینی حقائق جھٹلانے لگے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے وہ اپنی اہمیت بڑھانے اور زیادہ حصے کی وصولیابی کے لیے چالیں چل رہے ہیں کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ اِتنے لا علم ہوں گے ۔

شہباز شریف کو جماعت کی طرف سے آئندہ وزارتِ عظمٰی کا امیدوار نامزد کرنے سے وہ موجودہ اہم حیثیت سے اہم تر ہوگئے ہیں ٹھہرائواور سنبھل کر قدم چلانے کی پالیسی پر کاربند رہنے سے وہ سب کے لیے قابل قبول ہیں اور آجکل سب سے بنا کر رکھنے کی کوشش کر رہے ہیںکیونکہ ماڈل ٹائون سانحہ سے خوفزدہ ہیں مگر سچ یہ بھی ہے کہ چاہے وہ نواز شریف کو وزیراعظم کہتے رہیں مگر فی الحال یہ عہدہ شاہد خاقان عباسی کے پاس ہے ۔ظاہر ہے ایک طاقتور عہدہ پر فائز شخص زیادہ بہتر طریقہ سے بات منوانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے جہاں تک بااعتماد ہونے کی بات ہے اگر ذرا سا بھی شک ہوتا تو نواز شریف ہر گز عہدہ نہ دیتے ظاہر ہے شریف خاندان کے شاہد خاقان عباسی انتہائی معتمد ہیں، اسی لیے انھیں آگے لایا گیا ہے اگر سعودی حکمرانوں سے این آر او کی درخواست کرنا ہی تھی تو اِس کے لیے وزیر اعظم زیادہ بہتر پوزیشن پر ہیں جس کا بہترین موقع وہ تھاجب آرمی چیف کے ساتھ وہ جدہ گئے تھے۔ موجودہ حالات ایسی کسی سرگرمی کے لیے قطعی سازگار نہیں۔
پہلے جب این آر او ہوا تھا تب ملک میں فوجی حکومت تھی جو سیاسی سہاروںکی تلاش میں تھی اور ایک ہی شخص کے پاس اختیار تھے اب ملک میں متضاد صورتحال ہے۔ آرمی چیف ایک سے زائد بار جمہوریت مضبوط کرنے کا عزم دُہرا چکے ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پرویز مشرف جتنے اختیارات اُن کے پاس نہیں ۔آئین بھی بحال ہے تو پھر بھلا کیسے این آر اوممکن ہے۔ اگر کسی کے خیال میں عدلیہ کے ذریعے ایسا ممکن ہے تو ذہن میں رہے سعودی حکمران قطعی اس پوزیشن میں نہیں کہ عدلیہ سے مرضی کے مطابق فیصلے کرا سکیںنہ ہی عدلیہ اپنی ساکھ تباہ کرنا پسند کرے گی۔

نا اہلی کے بعد نواز شریف نے کوشش کی کہ ڈرا دھمکا کر کسی طرح کلین چٹ لے لی جائے۔ اسی لیے اداروں پر سازش کرنے کے الزام لگائے، کبھی جی ٹی روڈ پر تماشا لگایا، خیال تھا کہ کیونکہ عدلیہ بحالی تحریک میں انھوں نے حصہ لیا نیزعدلیہ کی موجودہ آزادی کو اپنے مارچ کا صلہ سمجھتے ہیں ۔ عسکری قیادت بھی ہمیشہ اُن پر مہر بان رہی کیونکہ وہ ان ہی کالگایا ہوا سیاسی گملا تھے ۔اسی لیے نرمی کے تمنائی تھے مگر ایسا کچھ نہیں ہواجو نواز شریف کے لیے حیران کن ہے۔ دبائو ڈال کر اور الزام تراشی سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا تو اب وہ افہام وتفہیم کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ تاکہ کچھ سیاسی کردار مل جائے اسی لیے این آر او کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔کچھ لوگ تو این آر او کی باتوں کے پس پردہ مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیاکی کارستانی قرار دیتے ہیںتاکہ کیسوں میں پھنسی قیادت کو راحت پہنچائی جائے مگر بدقسمتی سے کہیں کوئی آل شریف کا بہی خواہ موجود بھی تھا تواب اُن کے طرزِ عمل سے بدک گیا ہے۔ اس لیے معافی تلافی کا فارمولہ طے ہونا تو درکنا ر ایسا کچھ سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔

فہمیدہ حلقوں کو بخوبی معلوم ہے کہ سعودی عرب کا پاکستانی سیاست میں کردارخاصا محدودہو گیا ہے اگر وہ کوشش کرے بھی تو شریف خاندان کی مدد نہیں کر سکتا۔دوسری بات یہ ہے کہ یمن مسئلہ پر سعودی قیادت کو نواز شریف نے مایوس کیا۔ امارات کے وزیر نے دھمکیاں بھی دیں جس کے بعد بھی پاکستان نے غیر جانبداری برقرار رکھی ۔ذرا سوچیں ایک کمزور پوزیشن کا حامل فریق جو نا راض بھی ہو کیونکر کسی ایسے فرد کے لیے دبائو ڈالے گا جس سے حاصل بھی کچھ نہ ہو مگر دبائو ڈالنے سے موجودہ پوزیشن سے محرومی کا خدشہ بھی ہو۔

اگر این آراو کی خواہش ہے بھی تو سعودیہ کے بجائے اُس پرشاہد خاقان عباسی زیادہ بہتر طریقہ سے بات کرانے کی پوزیشن میں ہیں جو تمام ا سٹیک ہولڈرز سے رابطے میں ہیں جن کے لیے شہاز شریف خود پسندیدہ ہیں۔ ایسے موافق حالات میں کسی کو کسی کے پاس بھیجنے کی بھلا کیا تُک بنتی ہے ۔ذہن نشین رہے کہ سعودی عرب میں بھی بدعنوانی کے خلاف مہم جاری ہے شہزادوں سمیت ملکی و غیر ملکی گرفت میں لیے جا رہے ہیں۔ نیب کی تفتیشی ٹیم بھی سعودی حکام سے نااہل نواز شریف کے خلاف ثبوت لینے کے لیے رابطے میں ہے۔ میرے خیال میں شہباز شریف نے اسی لیے جدہ کی اُڑان بھری ہے کہ دوستوں کو قائل کیاجائے کہ معلومات دے کر ہمارے لیے مزید مشکلات کھڑی نہ کریں۔ یہی قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں