خواتین کے لیے بھارت دنیا میں بدترین جگہ، اقلیتی خواتین دباؤ کا شکار
شیئر کریں
بھارت ہر سال 13 فروری کو خواتین کا قومی دن مناتا ہے لیکن خواتین کو ہر روز ہراساں کیا جاتا ہے، چھیڑا جاتا ہے، گرفتار کیا جاتا ہے اور خوف زدہ کیا جاتا ہے اور عصمت دری جیسے سنگین واقعات سمیت زیادہ تر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق خواتین کے لیے بھارت دنیا میں بدترین جگہ ہے اور جہاں تک خواتین کے خلاف جرائم کا تعلق ہے تو ہندوتوا آر ایس ایس اور بی جے پی کی زیر قیادت یہ ملک دنیا میں سب سے آگے ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں خواتین کو عام طور پر دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے جب کہ اقلیتیں بشمول مسلمان، دلت اور عیسائی خواتین انتہائی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور ذلت محسوس کر رہی ہیں۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی بھارت میں خواتین کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ شہروں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ دنیا کا عصمت دری کا دارالحکومت بن چکا ہے جب کہ عصمت دری کے حوالے سے کولکتہ 19 بھارتی شہروں میں سب سے آخر میں ہے۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم بڑھ رہے ہیں جبکہ عصمت دری کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق 2020 میں بھارت بھر میں اوسطا ہر روز تقریبا 77 عصمت دری کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این سی آر بی کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عصمت دری کے علاوہ چھیڑ چھاڑ کے 85 ہزار 392 واقعات کے ساتھ ساتھ زیادتی کی کوشش کے 3741 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ این سی آر بی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 میں عصمت دری کے واقعات کی تعداد 28ہزار46، 2019 میں 32ہزار33، 2018 میں 33ہزار356اور 2017میں 32ہزار559 تھی۔ گزشتہ 10 سالوں میں عصمت دری کے معاملات کا ریاستی سطح پر تجزیہ کرتے ہوئے انڈیا ٹوڈے نے کہا کہ 2019ء میں اترپردیش سے لیکر راجستھان اورکیرالہ سے لیکر مدھیہ پردیش تک دس ریاستوں میں مجموعی کیسوں کا دو تہائی سے زیادہ رپورٹ ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت میں ہر 16 منٹ میں ایک خاتون کی عصمت دری کی جاتی ہے، جبکہ بھارت میں ہر 30 گھنٹے میں ایک خاتون کی اجتماعی عصمت دری کی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت میں عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات مہذب دنیا کے لیے ایک چیلنج ہیں۔