جنرل (ر) پرویز مشرف اور کشمیر
شیئر کریں
ویسے تو پاکستان کو کئی ایسے حکمران نصیب ہوئے ہیں، جو خاصے پیچیدہ، متلون مزاج اور پل میں تولہ اور پل میں ماشہ جیسی خصوصیات رکھتے تھے، مگر سابق صدر اور فوجی سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو، جن کا اتوار کو دبئی کے ایک اسپتال میں طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا،بیک وقت جارحانہ جنگی جنون رکھنے اور امن مساعی کے لیے یاد کیا جائیگا۔ میر ی دو بار ان سے ملاقات ہوئی ہے۔ ایک توجب جولائی 2001کو آگرہ میں چوٹی مذاکرات میں شرکت کرنے سے ایک روز قبل نئی دہلی میں پاکستانی سفیر نے ان کے اعزاز میں چائے کی دعوت رکھی تھی اور صحافیوں اور چند دانشوروں کو اس میں مدعو کیا تھا، دوسرا 2005میں جب وہ ایک بار پھر نئی دہلی میں تھے اور اس وقت وہ بھارت اور پاکستان کے مابین ایک روزہ کرکٹ میچ دیکھنے آئے تھے۔ اس دوران وزیر اعظم من موہن سنگھ کی طرف سے ان کے اعزاز میں دی گئی ضیافت اور پھر خود مشرف نے تاج ہوٹل میں پاکستانی اور بھارتی ٹیموں کے اعزاز میں ڈنر کی دعوت دی ، جس میں دہلی کی اشرافیہ کی ایک بڑی تعداد نیز صحافی اور سفارت کار بھی مدعو تھے۔ وہ ایک اچھے میزبان کی طرح ہر ٹیبل پر خبر و خیریت دریافت کرنے آکر ہاتھ ملا رہے تھے۔ ان دونوں دوروں کے دوران ان کا رویہ یکسر برعکس تھا۔ 2001میں وہ خاصے جارحانہ موڑ میں تھے اور اسی لہجے میں باتیں کر تے تھے، مگر 2005میں ان کی بولی بالکل مختلف تھی۔
2001میں جب ابھی حریت کانفرنس متحد تھی اور آگرہ مذاکرات سے قبل اس کے لیڈران ان سے پاکستانی سفیر کی رہائش گاہ پر ملے ، تو عبدالغنی لون اور پروفیسر عبدالغنی بٹ نے جب ان سے استفسار کیا کہ کرگل جنگ کے اہداف میں ناکامی کے بعد کیا کوئی متبادل راستہ ڈھونڈا جائیگا اور جنگ جیسے اقدام کیلئے پاکستان کی سیاسی قیادت اور فوجی قیادت ایک پیج پر کیوں نہیں تھی اور حریت کو بھی اعتماد میں کیوں نہیں لیاگیا تھا، تاکہ وہ ایک عوامی رائے عامہ بناتے، تو مشرف خاصے جزبجز ہوگئے۔ ان لیڈران نے کہا کہ لاہور اعلامیہ کے فوراً بعد ہی کیوں کرگل کا واقعہ رونما ہوا؟ اگر کرگل میں فوج کشی کرنی تھی، تو بھارتی وزیر اعظم واجپائی کو لاہور آنے ہی نہیں دینا چاہئے تھا۔ مشرف نے ان سوالات کو ان کی کمزوری سے تشبہہ دیکر اسی میٹنگ میں موجود سید علی گیلانی کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ مگر 2005میں جب حریت تقسیم ہو چکی تھی اور اس کے دھڑے الگ الگ اسی کمرے میں دوبارہ ا ن سے ملے، تو ان کا رویہ الٹا تھا۔ اس میٹنگ میں تو انہوں نے میرواعظ عمر فاروق کی سربراہی والے گروپ کی تو تعریف کی، مگر دوسری میٹنگ جو علی گیلانی کے ساتھ تھی، اس میں ان کا پارہ چڑھا ہوا تھا اور وہ ان کو طعنے دے رہے تھے کہ وہ بس ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ اس میٹنگ میں تو بلوچستان اور اکبر بگتی سے نمٹنے کے حوالے سے علی گیلانی کے دئیے گئے بیانات پر مشرف خاصے غصہ میں تھے۔ یہ میٹنگ تو ایک لفظی جنگ کا نمونہ بن گئی۔ مشرف میں لاکھ برائیاں سہی۔پاکستانی ان کو ملک میں دہشت گردی کی لہر اور اپنے ہی لوگوں کو ڈالروں کے عوض امریکا کے سپرد کرنے کا بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ بھارت کے ساتھ امن مساعی کے نام پر انہوں نے ایک ماحول تیار کرنے میں مدد دی تھی، جس کی وجہ سے کشمیر میں سیاسی جماعتوں بشمول حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند گروپوں کو سانس لینے کا موقعہ تو ملا۔ علی گیلانی نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھا کر ریاست کے طول و عرض میں قریہ قریہ دورہ کرکے عوام کو لام بند کیا،جس کا شاخسانہ بعد میں 2008اور 2010پھر بعد میں 2016کی عوامی بغاوت تھی۔
گو کہ 2003کے بعد وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز مفتی محمد سعید اس پالیسی کاکریڈیٹ اپنے سر لیتے ہیں، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نئی دہلی کو قائل کرایا تھا کہ وہ سیاسی میدان میں آزادی پسندوں کا مقابلہ کریں گے۔ مگر یہ مشرف کے بغیر ناممکن تھا۔ ان ایجی ٹیشنز کی وجہ سے جو اہم تبدیلی رونما ہوئی وہ یہ تھی کہ تحریک کی کمان، عسکریت سے سیاسی قیادت کے پاس چلی گئی۔ اعتماد سازی کے کئی اقدامات روبہ عمل لائے گئے، جن میں سب سے اہم لائن آف کنٹرول کو راہداری اور تجارت کیلئے کھولنا تھا۔ علاو ہ ازیں مشرف کے کشمیر پر فارمولہ پر بحث و اختلاف کی گنجائش تو موجود ہے، مگر یہ پہلا موقعہ تھا کہ جب دو طرفہ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر کئی دہائیوں کے بعد سنجیدگی کے ساتھ گفت و شنید ہو رہی تھی اور لگتا تھا کہ شاید اب برف پگھل رہی ہے۔ دونوں ممالک نان پیپرز کا تبادلہ کر رہے تھے۔ جون 1997میں جب بھارت اور پاکستان نے آٹھ متنازعہ امور کی نشاندہی کرکے ان پر الگ الگ ورکنگ گروپ بناکر مربوط جامع مذاکرات کا احیاء کیا، تو میں نے ان مذاکرات کو کور کرنا شروع کردیا تھا۔ یہ آٹھ امور ، امن و سلامتی اور اعتماد سازی، جموں و کشمیر، سیاچن، ولر بیراج، سر کریک، تجارت اور اقتصادی تعاون، دہشت گردی اور ڈرگ ٹریفیکنگ اور عوامی روابط و کلچر کا فروغ تھے۔ جہاں دیگر ورکنگ گروپوں کی میٹنگ گھنٹوں چلتی تھی، کشمیر والے ورکنگ گروپ کی میٹنگ بس چند منٹ میں ہی ختم ہوجاتی تھی۔ دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریز اپنے موقف کا اعادہ کرتے تھے اور اس کے بعد مذاکرات ختم ہو جاتے تھے۔ چونکہ میں دیگر صحافیوں کے ساتھ مذاکرات کمرے سے باہر ہی بیٹھا ہوتا تھا، ہم مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی میٹنگ کی طوالت سے تولتے تھے۔ (جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔