میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پراسرار بخار سے ہلاکتیں، وجہ جاننے کے لیے ٹیسٹ کروانے کے پیسے نہیں، پولیس سرجن

پراسرار بخار سے ہلاکتیں، وجہ جاننے کے لیے ٹیسٹ کروانے کے پیسے نہیں، پولیس سرجن

ویب ڈیسک
منگل, ۳۱ جنوری ۲۰۲۳

شیئر کریں

کراچی کے علاقے مواچھ گوٹھ کا علی محمد گوٹھ ان دنوں پراسرار بیماری کی لپیٹ میں ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ میڈیکولیگل آفیسر کے پاس اس کی وجہ جاننے کے لیے ٹیسٹ کروانے کے پیسے ہی نہیں۔کراچی کے ضلع کیماڑی میں واقع علی محمد گوٹھ کے رہائشی پراسرار بخار کی لپیٹ میں ہیں اور اہل علاقہ کے دعوؤں کے مطابق 20 افراد، جن میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے، اس نامعلوم بیماری سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔اس نامعلوم بخار کا انکشاف رواں ماں 26 جنوری کو ہوا جس بعد انتظامیہ حرکت میں آگئی۔ متاثرہ علاقے میں ڈاکٹرز کی ٹیمیں روانہ کی گئیں اور اس پراسرار بیماری کے بارے میں پتہ لگانے کے لیے تحقیقات کا آغاز ہوا۔ابتدائی طور پر یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ اموات متاثرہ علاقے میں قائم غیر قانونی فیکٹریوں سے خارج ہونے والے مضر صحت دھویں کے باعث ہوئی ہیں۔ اس نامعلوم بیماری کا شکار افراد چیسٹ انفکشن بلخصوس سانس لینے میں دشواری کی شکایت کر رہے تھے لیکن سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی رپورٹ نے ماحولیاتی آلودگی کے عنصر کو رد کر دیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اموات کی وجہ ماحولیاتی آلودگی یا زہریلی گیسیں نہیں تاہم یہ کسی متعدی بیماری یا زہریلے کھانے سے ہوسکتی ہیں۔اس رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ماہرین صحت پرمشتمل انویسٹی گیشن ٹیم کے ذریعے تحقیقات کروا کر کر علی محمد گوٹھ میں ہونے والی اموات کی وجوہات کا تعین کیا جائے۔31 جنوری بروز منگل علی محمد گوٹھ کا رہائشی تین سالہ بچہ، جس کی شناخت عبدالحلیم ولد عبدالوہاب کے نام سے ہوئی، اس نامعلوم بخار کے باعث انتقال کر گیا۔بچے کے والدین کے مطابق عبدالحلیم چند روز سے بیمار تھا اور محکمہ صحت کے میڈیکل کیمپ میں زیر علاج تھا مگر گزشتہ رات اچانک اس کی طبیعت خراب ہوگئی اور انتقال کرگیا۔انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی رپورٹ منظر عام پر آجانے کے بعد انتظامیہ نے اس پر اسرار بخار سے جاں بحق افراد کا پوسٹ مارٹم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں عبدالحلیم کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے سول اسپتال کراچی لایا گیا لیکن کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود اس کا پوسٹ مارٹم نہیں ہو سکا۔پولیس سرجن کراچی ڈاکٹر سمعیہ سید نے سما ڈیجیٹل کو بتایا کہ میڈیکو لیگل افسر کو پوسٹ مارٹم کرنے پر اعتراض نہیں لیکن ٹیسٹ کے لیے حاصل کیے گئے نمونوں کو لیبارٹری بھیجا جائے گا۔پولیس سرجن نے بتایا کہ ٹیسٹ کے لیے حاصل کیے گئے نمونوں کو جامعہ کراچی میں واقع انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائینسز کے انڈسٹرئیل اینالیٹیکل سینٹر بھیجا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ لیبارٹری انتظامیہ سے ٹیسٹ کے لیے رابطہ کیا گیا ہے اور انہوں نے بتایا ہے کہ ٹیسٹ پر 56 ہزار روپے لاگت آئے گی۔پولیس سرجن کا کہنا تھا کہ ڈیپارٹمنٹ کے پاس اتنے فنڈ موجود نہیں کہ ٹیسٹ کے اخراجات برداشت کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی محکمہ صحت کو بتا دیا ہے کہ ٹیسٹ کے لیے فنڈز دستیاب نہیں اور اگر محکمہ صحت فنڈز جاری کر دے تو بچے کا پوسٹ مارٹم کر کے نمونے ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بھیج دیئے جائیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں