بلدیہ عظمی کراچی تک، اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے
شیئر کریں
بالآخرصوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ کامیابی کے ساتھ مکمل ہوگیا اور اُمید ہے کہ آئندہ چند دنوں میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا منتخب میئر بھی بلدیہ عظمی کراچی میں اپنی انتظامی ذمہ داریاں بہ احسن و خوبی سنبھال لے گا۔اگلا میئر کراچی کون ہوگا؟۔اِس سوال کا جمہوری انداز میں تسلی بخش اور سب کے لیئے قابل قبول جواب حاصل کرنے کے لیے ہی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیاگیا تھا،مگر افسوس، حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے میئر کراچی ،کی اُلجھی گتھی کو سلجھانے کے بجائے اُلٹا مزید اُلجھادیا ہے اور اَب اِس اُلجھی ہوئی گتھی کو احتیاط کے ساتھ سلجھانے کے لیئے پاکستان پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین اعلیٰ سطحی مذاکرات زور و شور کے ساتھ جاری ہیں ۔
چونکہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں عددی اعتبار سے غیر متوقع طور پر سب سے آگے پاکستان پیپلزپارٹی رہی ہے ،اس لیئے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی شدید ترین خواہش ہے کہ میئر کراچی کے عہدہ پر کوئی جیالا اُمیدوار متمکن ہواور جمہوری اقدار کی رو سے یہ مطالبہ اِس لیئے عین قرین قیاس لگتاہے کہ جمہوریت میں حکومت قائم کرنے کا سب سے فائق حق اکثریتی جماعت کا تسلیم کیا گیاہے۔ مگر دوسری طرف جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا اصرار ہے کہ میئر شپ کے حقیقی اور اصل حق دار صرف وہ ہیں اور اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو اُن کا دعوی بھی کچھ اتنا غلط اور غیرمنصفانہ نہیں ہے۔ مانا کہ جماعت اسلامی چھ، سات نشستوں کے عددی فرق سے پیپلزپارٹی سے ذرا سی پیچھے رہ گئی ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے غیر مشروط حمایت مل جانے کے بعد حافظ نعیم الرحمن کا بلدیہ عظمی کراچی کا میئر بن جانا لگ بھگ طے ہو چکا ہے ۔جبکہ سندھ حکومت کی صورت میں کراچی شہر کے تمام نظم و نسق کے ذمہ ادارے پہلے ہی پیپلزپارٹی کی انتظامی گرفت میں ہیں تو ایسی صورت میں پاکستان پیپلزپارٹی عددی اکثریت رکھنے کے باوجود بھی اگر حافظ نعیم الرحمن کی بلدیہ عظمی کراچی کے لیئے مشروط حمایت کردیتی ہے تو اِس طرز ِ سیاست سے کراچی میں مفاہمت کی فضا پیدا ہوگی۔
اگر کوئی سیاسی معجزہ رونما نہیں ہوتا تو اگلے میئر کراچی یقینا حافظ نعیم الرحمن ہی ہوں گے ،بس، فیصلہ یہ ہونا باقی رہ گیا ہے کہ اُنہیں بلدیہ عظمی کراچی تک پہنچانے کے لیئے پاکستان پیپلزپارٹی کا مشروط تعاون میسر آتا ہے یا پھر پی ٹی آئی کی غیر مشروط حمایت ۔ ہماری دانست میں حافظ نعیم الرحمن آخری وقت تک پاکستان پیپلزپارٹی کے مشروط تعاون کے منتظر رہیں گے ۔تاکہ وہ بلدیہ عظمی کراچی کے ایک بااختیار اور فعال میئر بن کر اپنے وعدے اور اعلانات کے مطابق اہلیان کراچی کو اُن کے جائز حق دلاسکیں ۔ اگر خدانخواستہ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے درمیان جاری مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے ، تب بھی پی ٹی آئی کی غیر مشروط حمایت کی بدولت میئر کراچی وہ بن تو جائیں گے۔ لیکن شاید پھر اُن کے لیئے بلدیہ عظمی کراچی کا ایک فعال میئر بننا ممکن نہ ہوسکے۔
یاد رہے کہ بلدیہ عظمی کراچی کی بھرپور فعالیت کے لیئے میئر کراچی اور سندھ حکومت کے مابین ایک موثر ورکنگ ریلیشن شپ کا ہونا ازحد ضروری ہے ۔کیونکہ میئر کراچی کے تمام تر اختیارات کا اصل منبع اور ماخد سندھ حکومت ہی ہے۔ لہذا، شہر کراچی کے سیاسی مفاد میں یہ ہی زیادہ بہتر ہوگا کہ نئے منتخب میئر کراچی کو سندھ حکومت کی بھرپور مدد و معاونت حاصل ہو۔اگر جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف مل کر میئر کراچی کے عہدے پر حافظ نعیم الرحمن کوفائز کرتے ہیں تو پھر قوی امکان یہ ہے کہ بلدیہ عظمی کراچی کے تمام اُمور سندھ حکومت کے ساتھ روز بروز ہونے والی سیاسی اور انتظامی چپقلسوں کے نذر ہوجائیں گے۔نیز میئر کراچی ،شہر کو اُس کے جائز حق دلوانے کے بجائے اپنے کام کرنے کے اختیارات کا مطالبہ کرتے ہوئے دکھائی دیا کریں گے۔ اَب یہاں فیصلہ بہرحال حافظ نعیم الرحمن کو ہی کرنا ہوگا کہ وہ پیپلزپارٹی کی سیاسی مخالفت مول لے کر بلدیہ عظمی کراچی کا میئر بننا چاہتے ہیں یا پھر شہر کا بے اختیار میئر بننے کے بجائے بلدیہ عظمی کراچی میں طاقت ور اپوزیشن بننا چاہیں گے۔
ہماری ناقص رائے میں حافظ نعیم الرحمن کو میئر کراچی صرف اور صرف پاکستان پیپلزپارٹی کی حمایت کے ساتھ ہی بننا چاہیے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر ایک بے اختیار میئر بننے سے زیادہ بہتر یقینا بلدیہ عظمی کراچی میں اپوزیشن لیڈر بننا ہوگا۔واضح رہے کہ ایک بے اختیار میئر ، فقط شہر کراچی کے لیئے ہی بے کار اور مصرف نہیں ہوگابلکہ مستقبل قریب میں جماعت اسلامی کراچی کی مقامی سیاست کے لیئے بھی سخت سیاسی ضرر اور نقصان کا باعث ثابت ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ عام لوگوں کی بڑے شہر کے میئر سے بہت بڑی بڑی انتظامی توقعات وابستہ ہوتی ہیں اور اُنہیں میئر کی سیاسی و انتظامی مجبوریوں یا لاچاریوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ دراصل عام شہری میئر کی ہر مجبوری کو اُس کی انتظامی نااہلی سے تعبیر کرتا ہے۔ اِس لیئے ایک بے اختیار میئر ،مقبولیت کی اوجِ ثریا سے اُتر کر ہی کیوں نہ اپنے عہدے کا چارج سنبھالے ، لوگ صرف اُس کا ،کام دیکھتے ہیں اور اچھی شکل و صورت کا قطعی کوئی لحاظ نہیں کرتے۔ میئر بے چارہ اپنے بے اختیار ہونے کا لاکھ رونا روتے رہے ، دہائیاں دیتے رہے ۔شہریوں کی بس ایک ہی رَٹ ہوتی ہے کہ ’’بے اختیار ہوتو کرسی سے اُتر کیوں نہیں جاتے‘‘۔
یقینا حالیہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد اور نتائج پر سنگین نوعیت کے کئی سوالات اُٹھائے جاسکتے ہیں ،جیسا کہ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک(فافن) نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں غیر ضروری تاخیر نے پُرامن اور منظم انتخابی عمل کو بُری طرح سے گہنا دیا ہے اور سیاسی جماعتوں کے دھاندلی کے الزامات نے بھی انتخابات کی شفافیت کو شدید متاثر کیاہے‘‘۔لیکن دوسری جانب فافن نے کراچی میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ 20 فیصد سے بھی کم رہنے کے باوجود انتخابی عمل کو پُرامن اور کافی حد تک ایک منظم سرگرمی بھی قراردیا ہے۔کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات اچھے ہوئے یا بہت بُرے یہ بات اَب ماضی کا قصہ ہوئی ، حال کاواقعہ یہ ہے کہ نومنتخب میئر کراچی ،اہلیان شہر کے ساتھ اپنے کیئے گئے وعدوں کو پورا کرپاتے ہیں یا نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭