آٹا، ٹاٹا
شیئر کریں
دوستو،ملک بھر میں آٹے کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے، ایک طرف جہاں دکاندار قیمتوں میں من مانیاں کر رہے ہیں، وہیں سرکاری آٹا بھی آسمان چھوتی قیمتوں پر فروخت ہورہا ہے۔آٹے کی قلت کے باعث مہینے کے ابتدائی ایّام میں دیکھی جانے والی صورتِ حال مہینے کے آخر تک انتہائی گھمبیر مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ منافع خور دکاندار آٹے کے من مانے دام وصول کر رہے ہیں۔ مارکیٹ میں اس وقت آٹا 160 روپے فی کلو میں فروخت کیا جارہا ہے۔گزشتہ ہفتے خود ہم نے آٹا ہول سیل مارکیٹ سے ایک سو تیس روپے خریدا تھا۔۔ جس کے بعد تیزی سے آٹے کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہونے لگا۔ پنجاب کے نان بائیوں کا کہنا ہے کہ 11 جنوری کو ہڑتال کرکے تندور بند کریں گے۔ آٹے کے بعد میدے کے ریٹ بھی آسمان پر پہنچ گئے ہیں۔پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن نے گندم بحران اور آٹے کی قیمت میں بے پناہ اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر کچھ عرصہ کے اندر 30 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد نہ کی گئی تو ملک میں خوراک کا شدید بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ایسوسی ایشن کے صدرچودھری افتخار مٹو کے مطابق ۔۔پاکستان کو تین کروڑ میٹرک ٹن گندم درکار ہے، مگر اس سال پیداوار دو کروڑ 70 لاکھ میٹرک ٹن ہوئی۔ 30 لاکھ میٹرک ٹن کی کمی اور حکومتی غلط فیصلوں کے باعث گندم کے بحران نے جنم لیا۔۔
ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ ڈاکٹر غلام حسین 1970 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جہلم سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ بعد ازاں وہ وفاقی وزیر ریلوے اور پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی مقرر ہوئے۔گذشتہ دنوں ان کی کتاب ’میری داستان جدوجہد‘ کی تقریب رونمائی میں پیپلز پارٹی، راولپنڈی کے سابق صدر سینیٹر سردار سلیم نے اس دور کا ایک واقعہ سنایا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد جب سرکاری ڈپو پر غریب عوام کو راشن کارڈ کے ذریعے راشن فراہم کیا جاتا تھا تو فراہم کیے جانے والے آٹے کا معیار خراب ہوتا چلا گیا۔فلور ملز مالکان، بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ سے ناقص اور غیر معیاری آٹا فراہم کرنے لگے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی توجہ پارٹی کارکنوں نے اس اہم مسئلے کی جانب مبذول کروائی تو انہوں نے اس کا ٹاسک ڈاکٹرغلام حسین کو دیا کہ معیاری گندم سے بنے آٹے کی فراہمی کو عوام کے لیے یقینی بنایا جائے۔ڈاکٹر غلام حسین نے پنجاب کی فلور ملوں پر چھاپے مارے اور تیار شدہ آٹے کے نمونے چیک کروائے، جس سے ثابت ہوا کہ واقعی غیر معیاری آٹا تیار کر کے راشن ڈپوؤں کو فراہم کیا جا رہا تھا اور اس عمل میں محکمہ خوراک کا عملہ بھی ملوث پایا گیا۔انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ جن فلور ملز کا آٹا غیر معیاری نکلتا اس کے مالک کو مزدوروں کے سامنے کان پکڑوا کر مرغا بنایا جاتا، اس تذلیل آمیز سزا پر مل مالکان پر ایسا خوف طاری ہوا کہ انہوں نے گندم میں ملاوٹ چھوڑ دی اور اپنا قبلہ درست کر لیا۔ ڈاکٹر غلام حسین کا کہنا تھا کہ اگر میں ملز مالکان کے خلاف ایف آئی آر درج کرواتا تو پولیس ان بااثر ملز مالکان کو گرفتار کرنے سے ہچکچاتی اور یوں وہ دوسرے روز ضمانت کروا کر دوبارہ اسی دھندے میں مصروف ہو جاتے۔
ایک طرف ہمارے ملک میں گندم کی پیداوار مسلسل کم ہوتی جارہی ہے دوسری طرف میڈیا رپورٹس کے مطابق متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ کے ریگستان میں گندم کی فصل کی ہریالی نے صرف ایک ماہ کے عرصہ میں 400 ہیکٹر پر مشتمل اس وسیع و عریض علاقے کو نخلستان میں بدل دیا ہے۔ شارجہ کے حکمران اور سپریم کونسل کے رکن شیخ سلطان بن محمد القاسمی نے اس پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کا افتتاح 30 نومبر 2022ء کو کیا تھا اور 400 ہیکٹر پر پھیلے ریگستانی علاقے میں گندم کی فصل اگانے کے انتظامات کیے تھے۔ گزشتہ دنوں شارجہ حکومت کے میڈیا بیورو نے شارجہ کے حکمران کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں انہیں ملیحۃ کے علاقے میں قائم کیے گئے گندم کے اس فارم کا دورہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں وسیع و عریض ریگستانی علاقے میں گندم کی ہری بھری فصل دیکھی جا سکتی ہے جس کے باعث یہ علاقہ ایک نخلستان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آئندہ چند روز میں فصل کٹائی کیلئے تیار ہو جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق، پروجیکٹ کے دوسرے مرحلے یعنی 2024ء تک 880 ہیکٹر پر فصل کاشت کی جائے گی اور 2025ء تک اسے 1400 ہیکٹر تک پھیلایا جائے گا۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے 13 میٹر پائپ لائنوں کی مدد سے فصلوں کو پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ اپنے دورے کے دوران، شیخ سلطان نے جدید ترین ایریگیشن اسٹیشن کا بھی معائنہ کیا جو گندم کے اس فارم کو 60 بڑے سکشن پمپ کی مدد سے دن بھر 60 مکعب میٹر پانی فراہم کرتا ہے۔۔ یہ پانی حمدۃ اسٹیشن سے 13 کلومیٹر طویل کنویئر پائپ لائن کے ذریعے فارم تک پہنچایا جاتا ہے۔
ایک جانب ہمارے ملک میں گندم کا شدید بحران جاری ہے تو دوسری طرف ہماری قوم کا یہ حال ہے کہ زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی گزشتہ 6 ماہ کے دوران کھانے پینے کی اشیا بیرون ملک سے منگوانے کا بل 5 ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا۔بتایاجاتا ہے کہ مالی سال 2023کے پہلے 6 ماہ یعنی جولائی تا دسمبر 2022 تک فوڈ امپورٹس 5ارب ڈالرز ے تجاوزر کر گئیں، پہلی بار کسی بھی مالی سال کے پہلے 6ماہ میں امپورٹس سب سے زیادہ رہیں، کوکنگ آئل کی درآمد 18فیصد اضافے سے 2ارب 30کروڑ ڈالرز رہی،سبزیوں دالوں کی ا مپورٹس 44فیصد اضافے سے 75کروڑ 90لاکھ ڈالرز رہیں، گندم کی درآمدات 29فیصد اضافے سے 60کروڑ 60لاکھ ڈالرز رہیں، جولائی تا دسمبر چائے اور کافی کی درآمدات 7فیصد بڑھیں۔ رپورٹ کے مطابق اسی عرصے میں چائے اور کافی کی درآمدات کا حجم 32کروڑ ڈالرز رہا، جولائی تا دسمبر آئل سیڈز کی امپورٹس 49کروڑ ڈالرز رہیں، مالی سال کی پہلی ششماہی میں پھل، میوہ جات کی درآمدات 11کروڑ ڈالرز رہیں، اسی عرصے میں مصالحہ جات کی امپورٹس کا حجم 7کروڑ 80لاکھ ڈالرز رہا، ڈیر ی اینڈ لائیوسٹاک کی درآمدات 2کروڑ10 لاکھ ڈالرز رہیں، جولائی تا دسمبر تمباکو کی درآمدات ایک کروڑ 10لاکھ ڈالرز رہیں۔
بیوی نے بڑے غصے سے شوہر سے پوچھا۔۔ آٹا کہاں سے لائے ہو؟ شوہر نے بیچارگی سے پوچھا، کیوں کیا ہوا؟ بیوی کہنے لگی۔۔ ساری روٹیاں جل گئی ہیں۔۔ایک سکھ کی میت پر اس کی بیوی اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ کھڑی بین کر رہی تھی۔۔۔وے توں اوتھے ٹر گیاں ایں جتھے دیوا ناں بتی،وے توں اوتھے ٹر گیا ایں جتھے منجھی ناں پیڑھی،وے توں اوتھے ٹر گیا ایں جتھے آٹا ناں روٹی۔۔عورت کا بیٹا بولا۔۔اماں، ابا کہیں پاکستان تو نہیں چلا گیا۔۔ایک اسکول میں کلاس ٹیچر نے پوچھا۔۔بتاؤ یہ کونسا زمانہ ہے؟؟۔میں رو رہی ہوں،تم رو رہے ہو،وہ رو رہی ہے،ہم سب رو رہے ہیں۔۔ایک ذہین شاگرد نے سیٹ سے فوری اٹھ کر جواب دیا۔۔ یہ تو پی ڈی ایم کی حکومت لگتی ہے۔۔ایک شخص دریا سے زندہ مچھلی پکڑ کر گھر پر لایا اور اپنی بیوی سے کہنے لگا اسے پکاؤ،بیوی نے کہا کیسے پکاؤں؟؟گھر میں نہ گھی ہے، نہ تیل ہے، نہ گیس ہے، اور بجلی بھی نہیں۔۔وہ شخص غصے سے اٹھااور مچھلی کو دوبارہ دریا میں چھوڑ آیا۔۔مچھلی نے دریا میں جاتے ہی اپنا سر باہر نکالا اور خوشی سے گانے لگی۔۔میاںدے نعرے وجنے ہی وجنے جے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔غلطی ماننے اور گناہ چھوڑنے میں کبھی دیر نہ کرو،کیوں کہ سفر جتنا طویل ہوگاواپسی اتنی ہی مشکل ہوجائے گی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔