میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ‘مرادعلی شاہ حاتم طائی بن گئے ، خزانے کی بند ربانٹ جاری

حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ‘مرادعلی شاہ حاتم طائی بن گئے ، خزانے کی بند ربانٹ جاری

ویب ڈیسک
پیر, ۱۳ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیر خزانہ کی حیثیت سے 8برسوں میں خسارہ کا ہی بجٹ پیش کرتے رہے ،اب سندھ کے خزانہ کی سرکاری ملازمین و افسران میں بے رحمانہ تقسیم
وزیر اعلیٰ ،گورنر ہاﺅس ،ریونیواکیڈمی ،سندھ سیکریٹریٹ وغیرہ میں تنخواہیں ڈبل،اضافی الاﺅنسز،مزید محکموںکو بھی نوازنے کی تیاریاں
الیاس احمد
پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے سندھ کے خزانے کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں میں اسے دونوں ہاتھوں سے بے دردی وبے رحمی سے لوٹا گیا ہے۔ سید مراد علی شاہ سات سال تک سندھ کے وزیر خزانہ رہے اور ہر سال بجٹ خسارے کا رہا مگر سب سے حیرت انگیز بات یہ رہی کہ ہر سال جون کے مہینے میں 40 سے 60 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی ۔ایسا تو وفاقی حکومت میں بھی نہیں ہوتا ،آخری مہینے میں جعلی منصوبے بنائے جاتے ہیں ۔بلاول ہاﺅس میں بادشاہ سلامت جعلی منصوبوں پر جعلی ٹھیکیداروں کو اربوں روپے کی ادائیگیاں کراتے ہیں اور پھر صوبہ خسارے میں چلا جاتا ہے ۔صرف اتنا تصور کیا جائے کہ لاڑکانہ شہر کے لئے 150 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج دینے کا اعلان کیا گیا مگر وہاں 150 ارب تو دور کی بات ہے 150 لاکھ روپے بھی خرچ نہیں ہوئے ۔
تب چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سید سجاد علی شاہ کو کہنا پڑا کہ کچھ تو خوف خدا کرو ڈائن بھی دس گھر چھوڑتی ہے۔ لاڑکانہ میں اربوں روپے کے ٹھیکے اسد کھرل نامی ٹھیکیدار کو دیئے گئے جب اس کو نیب‘ رینجرز اور حساس اداروں نے گرفتار کیا تو آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کے فرنٹ مین اور صوبائی وزیر سہیل انور سیال کے بھائی طارق سیال نے مسلح افراد لے کر تھانہ کا گھیراﺅ کیا اور اسد کھرل کو زبردستی رہا کرالیا اور اس تنازعہ میں سہیل انور سیال سے محکمہ داخلہ کی وزارت چلی گئی لیکن چونکہ وہ فریال تالپور کے وفادار تھے اس لئے وہ دوبارہ کابینہ میں بطور وزیر زراعت شامل ہوگئے۔
باوثوق ذرائع کا تازہ صورتحال سے متعلق کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے خزانہ کو بے رحمی سے استعمال کرنا نہیں چھوڑا، اربوں روپے غیر ضروری طورپر استعمال کرنا وطیرہ بنالیا گیا ہے۔ اب حال ہی میں پہلے وزیراعلیٰ ہاﺅس کے ملازمین کیلئے اسپیشل الاﺅنس کا اعلان کیا۔ ان کو ہر ماہ پانچ ہزارسے دو لاکھ روپے تک خصوصی الاﺅنس دے دیئے گئے۔ پھر بات یہیں تک ختم نہیں کی گئی۔ پھر گورنر ہاﺅس کے ملازمین کے لئے بھی وزیراعلیٰ ہاﺅس کی طرح خصوصی الاﺅنس دیئے گئے۔
آگے چل کر ریونیو اکیڈمی کے لئے خصوصی الاﺅنس کا اعلان کردیا گیا وہاں بھی پانچ ہزار روپے سے دو لاکھ روپے تک ہر ماہ خصوصی الاﺅنس دیئے گئے ہیں۔ریونیو اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل آصف حیدر شاہ موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے بہنوئی ہیں پھر سندھ ریونیو بورڈ کے ملازمین کی تنخواہ ڈبل کر دی گئی ۔ اس سلسلے کواور آگے بڑھایا گیا، سندھ پبلک پریکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے ملازمین کو بھی ڈبل تنخواہیں اور الاﺅنس دیئے گئے ہیں ۔اس کے بعد سندھ سیکریٹریٹ کے ملازمین کے لئے چار ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک خصوصی الاﺅنس دے دیئے گئے ہیں۔
اب اس بہتی گنگا میں عدالتوں کو بھی شامل کرلیا گیا ہے ،صوبہ بھر کی عدالتوں میں کام کرنے والے 9 ہزار ملازمین کو ہر ماہ تین بنیادی تنخواہوں کے برابر خصوصی الاﺅنس کی منظوری دی گئی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ خبریں یہ بھی ہیں کہ اب آئی جی اور چیف سیکریٹری سندھ کی تنخواہ میں ڈیڑھ لاکھ سے ڈھائی لاکھ روپے تک اضافہ کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے ۔اس کے بعد ایم پی ایز کی تنخواہیں بڑھائی جائیں گی اور آخر میں غریب وزراءاور مشیروں پر رحم کھایا جائے گا اور ان کی تنخواہیں بھی بڑھائی جائیں گی ،اور یہ کام رواں مالی سال کے اختتام تک مکمل کرلیا جائے گا۔
ہر کوئی کہتا ہے کہ موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نوجوان ہیں اور بڑی محنت سے دن رات کام کررہے ہیں لیکن اگر ایمانداری سے کسی آڈٹ کمپنی سے آڈٹ کرایا جائے تو پتہ چلے گا کہ سندھ کے خزانہ کو کس قدر بے رحمی سے مراد علی شاہ کی سربراہی میں لوٹا گیا ہے؟
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے صرف تین سالوں میں 215 ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف کیا گیا ہے اس سے بڑی چارج شیٹ اور کیا ہوگی؟ نیب اس میگا کرپشن پر کیوں خاموش ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خصوصی الاﺅنس کس بات کے دیئے جارہے ہیں؟ کیا ان ملازمین کو تنخواہیں نہیں ملتیں؟ کیا دیگر مراعات بھی ان کو حاصل نہیں ہیں؟ تو پھر خزانہ کو بے رحمی سے کیوں لوٹا جارہا ہے؟ کیوں خود کو حاتم طائی ثابت کیا جارہا ہے؟ اس کا حساب کون دے گا؟
٭….٭….٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں