داعش سربراہ عراق سے فرار، افغانستان پہنچنے کی پیش گوئی
شیئر کریں
اگر ابوبکر البغدادی افغانستان کو اپنا ٹھکانہ بناتے ہیںتو اس خطے میں داعش کی سرگرمیوں میں تیزی آسکتی ہے،مغربی میڈیا کا واویلا
موصل آپریشن کے آغاز میں وہ وہاں موجود تھے،ہمارے کنٹرول حاصل کرنے پر فرار کا فیصلہ کیا،امریکی محکمہ دفاع
امریکا کی اتحادی افواج کی مدد سے عراقی فورسز کی جانب سے موصل میں شروع کیے گیے آپریشن کے دوران شدت پسند تنظیم داعش (آئی ایس آئی ایس) کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے مبینہ طور پر فرار ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔جبکہ اس حوالے سے بھی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ ابو بکر البغدادی نے فرار ہونے سے قبل موصل جنگ کی کمانڈ مقامی کمانڈر کے حوالے کردی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق داعش کے سربراہ موصل کی جنگ کی کمانڈ مقامی کمانڈر کے سپرد کرنے کے بعد لیبیا کی جانب روانہ ہوئے ہیں جہاں کے دگرگوں حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کسی دوسرے افریقی ملک کا رخ کرسکتے ہیں اورعین ممکن ہے کہ وہ اپنا حلیہ تبدیل کرکے واپس افغانستان آجائیں۔ جہاںاطلاعات کے مطابق ابھی تک ان کا مضبوط نیٹ ورک موجود ہے اورداعش اور طالبان نے مل کر حال ہی میں افغان اور امریکی فوجیوںکے خلاف کئی کامیاب حملے کیے ہیں ۔ایسی صورت میں اگر ابوبکر البغدادی افغانستان میں اپنا ٹھکانہ بناتے ہیںتو اس خطے میں داعش کی سرگرمیوں میں تیزی آسکتی ہے۔
عراقی فوج نے گزشتہ ماہ سے موصل کے مغربی علاقے میں آپریشن شروع کررکھا تھا، جب کہ مشرقی موصل کو رواں برس جنوری میں فتح کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے ایک امریکی عہدیدار کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ موصل میں شروع ہونے والی جنگ کے دوران پھنس جانے کے خدشے کے پیش نظر ابوبکر البغدادی وہاں سے فرار ہوئے۔امریکی محکمہ دفاع کے عہدیدار نے واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابوبکر البغدادی نے اُس وقت فرار ہونے کا فیصلہ کیا جبکہ حال ہی میں عراقی فورسز نے امریکی فوج کی مدد سے موصل کے مرکزی علاقوں پر اپنا کنٹرول حاصل کیا، آپریشن کے آغاز میں وہ وہاں موجود تھے۔خیال رہے کہ داعش نے جون 2014ءسے موصل پر قبضہ قائم کررکھا ہے، تاہم عراقی فورسز یہ قبضہ چھڑانے میں ناکام رہی تھیں۔عراقی فوج نے رواں برس 8 جنوری کو مشرقی موصل کی فتح کا اعلان کیا تھا، جب کہ مغربی موصل کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے 19 فروری کو آپریشن کا آغاز کیا گیا، جس کے ایک ہفتے بعد عراقی فوج کو موصل ایئرپورٹ سمیت اہم عمارتوں کا قبضہ حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی تھی۔امریکا کی سربراہی میں متعدد ممالک کے فوجی اتحاد نے دو سال قبل داعش کے خلاف عراق میں پہلی فضائی کارروائی کی تھی، جس سے عراقی جنگ میں ایک ڈرامائی تبدیلی لائے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔2014ءسے 2016ءکے درمیان اتحادی افواج نے عراق میں 9400 فضائی حملے کیے، جس کا مقصد مقامی فورسز کو شہروں، قصبوں اور سپلائی لائن کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنا تھا۔
قبل ازیں عراق میںفوج نے آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں داعش (آئی ایس آئی ایس) کے زیر قبضہ ایئرپورٹ پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔عراقی اور امریکی فوجی کمانڈروں کے اعلانات کے مطابق مغربی موصل کا قبضہ چھڑانے کے لیے گزشتہ ایک ہفتے سے عراقی فوج اور داعش کے جنگجوو¿ں میں لڑائی جاری تھی، جس میں عراقی فوج نے اب تک کی اہم پیش قدمی کرتے ہوئے ایئرپورٹ کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے عراقی پولیس کے عہدیداروں کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ عراقی فوج نے 23 فروری کو موصل ایئرپورٹ پر دھاوا بولا جس دوران فوج اور داعش کے جنگجوو¿ں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔پولیس عہدیداروں کے مطابق عراقی فوج نے پیش قدمی کرتے ہوئے داعش کے جنگجوو¿ں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرکے سب سے پہلے ایئرپورٹ کے رن وے پر کنٹرول حاصل کیا۔پولیس کے مطابق شدید لڑائی کے بعد فورسز نے ایئرپورٹ کی مرکزی عمارت سمیت اس سے ملحقہ دیگر حصوں کا بھی کنٹرول حاصل کرلیا۔ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عراقی فورسز کو امریکی فوجی اتحاد کی ایڈوانس فورس کی بھی مدد حاصل تھی، تاہم اس فورس میں کن ممالک کے اہلکار شامل تھے یہ نہیں بتایا گیا۔مقامی میڈیا پر نشر کی گئی وڈیوز میں عراقی اور اتحادی فوج کے ہیلی کاپٹرز کو ایئرپورٹ پر داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے دکھایا گیا۔عراقی فورس کی اس پیش قدمی میں موصل کے جنوب میں واقع امریکی اتحادی فوجی اڈے کی فورس نے اہم کردار ادا کیا۔موصل کے گرد و نواح میں موجود داعش کے دہشت گردوں سے جنگ میں مرکزی کردار موصل کی انسداد دہشت گردی سروس (سی ٹی ایس) فورس ادا کر رہی ہے، جب کہ اس کی مدد کے لیے عراقی فوج اور وفاقی پولیس بھی دستیاب ہیں۔خیال رہے کہ 19 فروری کو عراق کے وزیر اعظم حیدرالعبادی نے موصل کے مغربی علاقے میں داعش کے خلاف آپریشن کا اعلان کیا تھا، جس کے فوری بعد عراقی فورسز نے پیش قدمی شروع کردی تھی۔وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ عراقی اور اتحادی فوجی مغربی موصل میں سب سے پہلے ایئرپورٹ کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
عراقی فوج کے سینئر کمانڈر نے موصل میں داعش کے خلاف جاری آپریشن مکمل ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے مشرقی موصل میں عراقی فوج کی ’فتح‘ کا اعلان کیا۔اعلان کے مطابق عراقی فورسز کو یہ کامیابی تین مہینے جاری رہنے والے آپریشن کے بعد حاصل ہوئی ہے اور اب عراقی فورسز کا دعویٰ ہے کہ وہ مشرقی موصل پر اپنا کنٹرول قائم کرچکی ہے جبکہ جلد ہی مغربی موصل میں بھی داعش کے خلاف آپریشن شروع کیا جائے گا۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آپریشن کے آخری مرحلے میں عراقی فورسز نے موصل کے مغربی علاقوں میں داخل ہو کر کارروائی کا آغاز کیا۔موصل کے علاقے برٹالہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی سروس کے سربراہ اسٹاف جنرل طالب شغاتی نے موصل کے بائیں کنارے کی آزادی کا اعلان کیا۔ان کا کہنا تھا کہ موصل کے مشرقی حصے میں حکومتی کنٹرول قائم ہوچکا، تاہم اب بھی باقی ماندہ شدت پسندوں کا صفایا کرنے کے لیے کچھ کام باقی ہے۔آرمی جنرل اسٹاف کے مطابق ’اہم علاقے اور اہم خطوط پر کام مکمل ہوچکا ہے‘ اور صرف شمالی حصے کے کچھ مقامات پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ عراق کے اہم ترین شہر موصل میں 17 اکتوبر کو داعش کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا، عراقی فورسز کے اس اہم آپریشن میں ہزاروں فوجیوں نے حصہ لیا اور موصل کے گنجان آباد علاقوں سے اپنی کارروائی کا آغاز کیا۔نومبر میں عراقی انسدادِ دہشت گردی سروس کو داعش کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اسی دوران داعش کے جنگجوو¿ں کی جانب سے عراقی فورسز پر کئی خودکش اور کار حملے بھی کیے گئے۔اس کارروائی کے آغاز کے بعد وفاقی فورسز کے تعاون اور امریکی اتحادی فورسز کی مدد سے دسمبر میں ہونے والی کارروائیوں سے نتائج مزید تیزی سے سامنے آئے۔
امریکی اتحاد کے اعداد و شمار کے مطابق 8 اگست 2014ءسے شروع ہونے والی فضائی کارروائیوں سے داعش، عراق میں اپنے زیر کنٹرول 40 فیصد علاقے کو خالی کرچکی ہے۔