کابل حکام کے بدوی فرمان
شیئر کریں
افغان عوام نے 8 اکتوبر 2001ء کے نیٹو و امریکی افواج کے حملے اور فوجی قبضہ کیخلاف آزادی اور استقلال کا علم بلند کیا۔ سب سے پہلے حزب اسلامی نے مسلح مزاحمت شروع کردی، ایک عرصہ بعد بکھرے ہوئے طالبان منظم ہونا شروع ہوئے اور مزاحمت کا آغاز کردیا۔ حزب اسلامی نے اپنے وسائل کے تحت 2016ء تک قابض افواج سے جنگ کی۔ بعد ازاں کابل حکومت سے مذاکرات کے نتیجے میں سیاسی عمل میں شریک ہوئی۔گلبدین حکمت یار کی کابل آمد کے بعد سیاسی میدانوں میں آزادی اور خومدمختاری کی جدوجہد شروع ہوئی، جلسوں، احتجاج اور ریلیوں کے ذریعے قابض افواج سے انخلاء کا مطالبہ ہونے لگا۔ پیش ازیں افغانستان کا کوئی سیاسی گروہ اس مؤقف کا حامل نہ تھا، سب ہی گویا امریکی تسلط کو رحمت سمجھ بیٹھے رہے۔حزب اسلامی کی سیاسی تحریک کا فائدہ افغان طالبان کو بھی ہونے لگا جو مسلح جدوجہد کررہی تھی، البتہ طالبان کا قطر کے دارالحکومت دوحا میں قائم سیاسی دفتر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں مصروف تھا۔ بالآخر 29 فروری 2020ء کو دوحا مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے اور نیٹو امریکی افواج کو چار و ناچار افغانستان سے نکلنا پڑا، افغان طالبان کی پشت پر افغان عوام کی حمایت موجود تھی۔، جس کے بغیر تحریک کا کامیابی سے ہمکنار ہونا ممکن نہ تھا، چنانچہ افغان طالبان نے عسکری اور سفارتی سطح پر مقصد پالیا۔
افغان عوام طویل آزمائش اور کٹھن دور میں صبر و استقامت کے ساتھ اپنے ملک کی آزادی اور اقتدار اعلیٰ کے قیام کے لیے ثابت قدم رہے، نئی حکومت نے اگرچہ زبان اور نسلی بنیادوں پر وجود رکھنے والی ملیشیا?ں کا خاتمہ کردیا، حکومتی رٹ قائم کی مگر اس حکومت کے بعض اقدامات دنیا کے لیے عدم قبولیت کا مؤجب بن رہے ہیں۔ اول چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کردی اور حال ہی میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر بھی قدغن کا فیصلہ کرلیا، جس کے لیے دلیل نظام تعلیم میں نقائص دور کرنے اور اصلاحات لانے کی دی گئی ہے، ایسا اگر کرنا بھی ہے تو جامعات میں لڑکیوں کی تدریس پر پابندی کہاں کی داشمندی اور منطق ہے، یہ کام تو درس و تدریس کے عمل کو متاثر کئے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے نتیجے میں مستقبل میں تعلیم، طب جیسے ضروری شعبوں میں بھی ہْنر مند خواتین ناپید ہوجائیں گی۔
دوسرا بین الاقوامی این جی اوز میں افغان خواتین کے کام پر پابندی عائد کردی گئی۔ یہ افغان خواتین کو حق روزگار سے محروم کرنے کا مذموم عمل ہے، مختلف این جی اوز صحت، تعلیم کے شعبوں میں کام کررہی ہیں، جس کی افغانستان کو از حد ضرورت ہے، اس پابندی کے اعلان پر بعض عالمی تنظیموں نے افغانستان میں اپنا کام بند کردیا، لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے پوری دنیا تشویش میں مبتلا ہوئی ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے طالبان کے اقدام کو انسانی حقوق کیخلاف عمل قرار دیا۔ او آئی سی نے فیصلہ واپس لینے کی تاکید کی ہے، یقیناً یہ اقدام انسانیت کیخلاف سنگین جرم ہی ہے۔ مصر کے قدیم اور مسلمان دنیا کے رہنماء علمی مرکز جامعہ الازہر کے سربراہ احمد الطیب نے اس رویے پر افسوس کا اظہار کیا، فیصلے کو قرآن اور شریعت سے متصادم قرار دیا اور واضح کیا ہے کہ یہ چونکا دینے والا اقدام اسلام اور شریعت کی نمائندگی نہیں کرتا اور کہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے عذاب کے مقابلے میں اقتدار اور اعلیٰ مقام ہمارے کسی کام نہیں آئے گا۔ احمد الطیب نے کابل حکام سے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
حزب اسلامی پہلے ہی حکومت کو ایسے فرمان جاری نہ کرنے کی تلقین کرچکی ہے، کابل حکومت حزب اسلامی کے تعلیمی اداروں پر پابندی لگاچکی ہے، حزب اسلامی کے افغانستان کے اندر دینی اور عصری تعلیمی ادارے قائم ہیں، طلبہ و طالبات ان اداروں میں زیر تعلیم ہیں، ان کے رفاہ عامہ کے کئی مراکز قائم ہیں، پاکستان کے بڑے عالم دین مفتی تقی عثمانی نے لڑکیوں کی تعلیم کی اجازت کا مشورہ دیا ہے، حتیٰ کہ افغان نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی جو قطر سیاسی دفتر کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، نے اپنی حکومت اور امیر کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے لڑکیوں کے اسکول کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔
غرض اگر اصلاحات مقصود بھی ہیں تو یہ کام عصری علوم کے ماہرین ہی کرسکتے ہیں، کابل حکومت کا یہ عمل دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کیلئے بدنامی کا باعث ہوگا، جن کی امریکا، یورپی اور اسلامی ممالک میں شاندار فلاحی، رفاعی اور علمی خدمات ہیں۔ یورپ و امریکا کے اندر اسلامک سوسائٹیز کی گراں قدر علمی و فلاحی خدمات ہیں، تحریکات اسلامی سے وابستہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی استبداد، استکبار اور آمریتوں کیخلاف مثالی جدوجہد اور قربانیاں ہیں۔
مصر کو لے لیجئے جہاں حسنی مبارک کی آمریت اور جنرل سیسی کے فوجی اقتدار کیخلاف اخوان المسلمین کی خواتین نے کس قدر عظیم جدوجہد کی ہے، مصر کے رابعہ عدویہ میدان، اسکندریہ کی قائد ابراہیم مسجد اور قاہرہ کی سڑکوں پر کتنی خوتین آمریت کے ستم کا نشانہ بنیں، اس وقت بھی سینکڑوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اخوانی خواتین جیلوں میں قید رکھی گئی ہیں، خود افغانستان کے اندر کمیونسٹ انقلاب کیخلاف افغان خواتین کی جدوجہد قابل ذکر ہے۔روسی فوجیں 27 دسمبر 1979ء کو افغانستان میں داخل ہوئیں تو کابل کے کالجوں اور یونیورسٹی کی طالبات سڑکوں پر نکل آئیں، ناہید اور وجہیہ معروف کردار ہیں، جنہوں نے روسی قبضہ کیخلاف نعرہ احتجاج بلند کیا، ردعمل میں کابل کی کمیونسٹ رجیم کے ہاتھوں قتل کردی گئیں اور دیگر کئی طالبات جیلوں میں بند کردی گئیں۔
حزب اسلامی افغانستان کی خواتین ونگ قائم ہے، کابل میں حزب کے مرکز ’’ایمان مسجد‘‘ میں خواتین جمعہ کی نماز میں شریک ہوتی ہیں، اب اگر طالبان حکومت ایسے فرمان جاری کریں گی تو دنیا کس اصول اور بنیاد پر ان کی حکومت تسلیم کرے گی۔ حال یہ ہے کہ پوری مسلم و غیر مسلم دنیا کی رائے کے بر خلاف طالبان اپنی بات پر اڑے دکھائی دیتے ہیں، یہ مسلم دنیا اور دنیا بھر کے جید علماء کے برعکس دین اور شریعت کی اپنی تعبیر و تشریح پر بضد ہیں۔لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے فیصلہ اگر مطلق ان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کا ہے تو یہ بدوی فرمان افغانستان کو دنیا سے الگ کردے گا، ایسے فرمان یقیناً آزادی پھر سے کھو دینے اور دائو پر لگانے کی وجہ بنیں گے۔ اس نوع کے فیصلے افغانستان کے ان گروہوں کے حق میں جاتے ہیں جو آج بھی گروہی بالادستی اور غیر ملکی افواج کو افغانستان میں داخل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں اور بلاشبہ پڑھے لکھے عالی دماغ افغان باشندے ملک چھوڑ دینے کو ترجیح دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔