پاکستان کے غیرملکی قرضوں میں ہوش ربا اضافہ
شیئر کریں
پاکستان نے رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ (جولائی سے نومبر) میں 5.115 ارب ڈالر غیر ملکی قرضے لیے جو گزشتہ سال کے مقابلے تقریبا 14 فیصد زیادہ ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق غیر ملکی اقتصادی امداد (ایف ای اے) کی ہفتہ وار رپورٹ میں وزارت اقتصادی امور کا کہنا ہے کہ پاکستان کو رواں مالی سال 2022-2023 کے پہلے پانچ ماہ میں 5.115 ارب ڈالر موصول ہوئے جو گزشتہ سال کے اسی مدت کے دوران تقریبا 4.449 ارب ڈالر تھے۔ دوسری جانب رواں مالی سال کے دوران صرف نومبر میں پاکستان کو بیرون ملک سے 84 کروڑ 20 لاکھ ڈالر موصول ہوئے جو گزشتہ سال کے اسی مہینے میں 79 کروڑ 40 لاکھ کے مقابلے میں 6 فیصد زیادہ ہے۔ مالی سال 2022-2023 کے پہلے پانچ ماہ میں بیرون ملک سے آنے والی کل رقم 5.115 ارب ڈالر رہے جو پورے سال کے لیے 22.817 ارب ڈالر کے بجٹ کے تخمینوں کا صرف 22.4 فیصد ہیں۔ مالی سال 2021-2022 کے پہلے پانچ ماہ میں 4.5 ارب ڈالر بیرون ملک سے موصول ہوئے جو 12.233 ارب ڈالر کے سالانہ بجٹ تخمینے کے حساب سے 37 فیصد ہے۔ وزارت اتصادی امور نے بالاخر نے مالی سال 2021-2022 کی رپورٹ جاری کی جس میں غیر ملکی اقتصادی امداد 16.975 ارب ڈالر ہیں۔سال 2019-2020کے پہلے پانچ ماہ میں 3.108 ارب ڈالر رقم بیرون ملک سے موصول ہوئے جو 12.958 ارب ڈالر کے سالانہ بجٹ کے تخمینے کا 24 فیصد تھا۔ گزشتہ ہفتے وزارت اقتصادی امور نے رپورٹ کیا تھا کہ پاکستان کو سال 2019-2020 کے دوران 10.7ارب ڈالر اور سال 2018-2019 کے دوران 8.4 ارب ڈالر موصول ہوئے۔ وزارت کی جانب سے بیرون ملک سے آنے والی رقم کے حوالے سے رپورٹ میں اوورسیز پاکستانیوں سے نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں مہنگے غیر ملکی قرضے شامل ہیں جو سالانہ ہدف کے 1.63 ارب ڈالر کے مقابلے میں پانچ ماہ میں صرف ۔ 13 کروڑ 90 لاکھ رہے۔ گزشتہ سال کے برعکس رواں سال بیرون ملک آنے والی رقم کے تین اہم ذرائع تھے جن میں کثیرالجہتی قرض دہندگان سے 4.172 ارب ڈالر، دو طرفہ قرض دہندگان سے 60 کروڑ 20 لاکھ ڈالر اور تجارتی بینکوں سے 20 کروڑ ڈالر شامل ہیں جبکہ چوتھا ذریعہ غیر ملکی بانڈز تھے جو اب کم ہوگئے ہیں کیونکہ غیر ملکی کھاتوں کے چیلنجز کی وجہ سے تاریخی طور پر کم زرمبادلہ کے ذخائر کے درمیان ناقص کریڈٹ ریٹنگ ہے۔ حکومت نے رواں مالی سال کے لیے بین الاقوامی بانڈز کا ہدف 2 ارب ڈالر رکھا تھا لیکن پانچ ماہ میں کسی بھی فنڈ میں اضافہ نہیں ہوا۔ کثیر الجہتی بینکوں میں سے ایشیائی ترقیاتی بینک میں 1.677 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا قرض دہندہ ہے، اس کے بعد دوسرے نمبر پر عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) ہے جس نے پاکستان کو 1.166 ارب ڈالر قرضہ دیا جس کے بعد آئی ایم ایف اور حکومتِ پاکستان کے درمیان زیرِ التوا مذاکرات کی وجہ سے ایک ارب 18 کروڑ ڈالر کی قسط کے اجرا کے لیے نواں جائزہ تاخیر کا شکار ہے۔ حکومت نے رواں مالی سال کے دوران آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر غیر ملکی رقم کا ہدف مقرر کیا تھا، تاہم رواں مالی سال 2022-2023 کے پہلے پانچ ماہ میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی ادائیگی دگنی ہو کر 1.677 ارب ڈالر تک پہنچ گئی جو گزشتہ مالی سال 2021-2022 کے پہلے پانچ ماہ میں 71 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تھے۔دوسری جانب عالمی بینک نے رواں مالی سال 2022-2023 کے پہلے پانچ ماہ میں 62 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ادا کیے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 69 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھے۔اس کے علاوہ بیجنگ میں قائم ایشیائی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری بینک (اے آئی آئی بی) نے 51 کروڑ ڈالر ادا کیے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے 3 کروڑ 80 لاکھ ڈالر زیادہ ہے۔اسلامی ترقیاتی بینک نے بھی کم مدت کی سرمایہ کاری میں 16 کروڑ 10 لاکھ ڈالر سمیت 17 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی توسیع کی تاہم دوطرفہ قرض دہندگان میں سعودی عرب نے رواں مالی سال 2022-2023 کے پہلے پانچ ماہ میں 50 کروڑ ڈالر کی موخر تیل کی ادائیگی کی سہولت میں توسیع کی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں صرف ایک لاکھ ڈالر کے نہ ہونے کے برابر تھی۔چین نے 5 کروڑ 50 لاکھ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جو گزشتہ سال 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔رواں سال تجارتی بینکوں سے قرضے کم ہوکر 20 کروڑ دالر پہنچ گئے جو گزشتہ مالی سال 2021-2022 کے پانچ ماہ کے دوران 1.53 ارب ڈالر تھے۔رپورٹ کے مطابق بجٹ میں مدد کے لیے حکومت کو بیرون ملک سے 3.786 ارب ڈالر اور کم مدت کے کریڈٹ کے لیے 66 کروڑ 10 لاکھ ڈالر موصول ہوئے جس کی وجہ سے رواں مالی سال 2022-2023 کے پہلے پانچ ماہ میں غیر پیداواری امداد میں 4.447 ارب ڈالر ہوگئے جو سالانہ ہدف کے مقابلے 21 ارب ڈالر تھے جس کا مطلب ہے کہ تیل کے لیے کل قرضوں، درآمدات، بجٹ کی مالی اعانت اور زرمبادلہ کے ذخائر کے فروغ کا 85 فیصد سے زیادہ حصہ حاصل کیا گیا تھا۔دوسری جانب رواں سال متعدد غیر ملکی فنڈ کے پروجیکٹ کے لیے 64 کروڑ 50 لاکھ ڈالر حاصل کیے گئے جو پچھلے سال کی اسی مدت میں 1.2 ارب ڈالر کے مقابلے میں تقریبا 46 فیصد کم ہے۔وزارت اقتصادی امور کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ چار سالوں سے غیر ملکی قرضوں کے دائرے میں اضافہ ہورہا ہے جو سال 2018-2019 میں 10.59 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2019-2020 میں 10.662 ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور پھر 2020-2021 میں 14.28 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2021-2022 میں 16.97 ڈالر تک پہنچ گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑھتے ہوئے کرنٹ اکانٹ خسارے اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کے لیے پاکستان کا غیر ملکی قرضوں پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سال 2021-2022 کے وفاقی بجٹ میں غیر ملکی قرضوں کے لیے سالانہ بجٹ کا ہدف 14.088 ارب ڈالر تھا اور حکومت نے 17 ارب ڈالرقرضہ لیا دوسری جانب حکومت نے سال 2020-2021 کے سالانہ دور میں کل 14.3 ارب ڈالر کا قرضہ لیا، رواں مالی سال کا ہدف تقریبا 23 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ مذکورہ اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتوں کو قلیل مدتی مہنگے تجارتی قرضوں پر انحصار کرنے کی وجہ سے پاکستان کے غیر ملکی قرضوں میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے۔