ایم کیوا یم اور پیپلزپارٹی کا اتحاد، رنگ لانے لگا ہے
شیئر کریں
سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیئے جب پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان 18 نکاتی ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ نامی معاہدہ طے پایا تھا تواُس وقت بہت ہی کم لوگوں کو یہ یقین تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی مذکورہ معاہد ہ پر من و عن عمل درآمد کرے گی ۔ کیونکہ زیادہ تر افراد کا یہ ہی ماننا تھا کہ ’’چارٹر آف رائٹس‘‘نظریہ ضرورت کے تحت کیا جانے والا فقط ایک وقتی ’’سیاسی معاہدہ ‘‘ہے اور جیسے ہی تحریک عد م اعتماد کامیاب ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا بوریا بستر گول ہوجائے گا ،تو اُس کے کچھ اُس عرصہ بعد ہی پیپلزپارٹی ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ سے دست بردار ہوجائے گی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کے ایوانِ اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد کئی ماہ تک جب مذکورہ معاہدہ پر عمل درآمد نہیں ہوا تو ایم کیو ایم کی قیادت کو بھی یہ اندیشے لاحق ہونے لگے تھے کہ شاید پیپلزپارٹی اُن کے ساتھ دستخط کئے گئے معاہدہ پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے اور ’’چارٹر آف رائٹس‘‘ پر عمل درآمد کے حوالے سے ہونے والی تاخیر پر ایم کیو ایم رہنماؤں نے پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کے خلاف ذرائع ابلاغ میں بڑھ چڑھ کر جارحانہ سیاسی بیانات بھی دیئے ۔ جس کے جواب میں پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ہمیشہ یہ ہی موقف اختیار کیا کہ اُن کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ کئے گئے معاہدہ ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ پر بہر صور ت عمل کیا جائے گا۔
یاد ش بخیر ! دیر آید درست آید کے مصداق پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنا سیاسی وعدہ نبھایا اور ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ میں درج اکثر نکات یعنی مطالبات کو درست تسلیم کرتے ہوئے اُن پر عمل درآمد بھی کر کے دکھا دیا ہے۔مثال کے طور پر سب سے پہلے ایم کیو ایم کے رہنما کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ کا عہدہ دیا گیا اور اَب ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب سے استعفا لے کر اُ ن کی جگہ ایم کیو ایم کے نامزد کردہ معروف بیورو کریٹ ڈاکٹر سیف الرحمن کو ایڈمنسٹریٹر کراچی کے عہدہ پر تعینات کردیا گیاہے ۔ نیز پیپلزپارٹی نے کراچی کے 7 سات اضلاع میں سے فی الحال 3اضلاع (کورنگی، شرقی اور وسطی ) کی ایڈمنسٹریٹر شپ بھی ایم کیو ایم کے حوالے کرنے کا اعلان کردیا ہے۔جبکہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی کوششوں سے ایم کیو ایم پاکستان نے باضابطہ طور پر سندھ حکومت میں شامل ہونے پر بھی رضامندی ظاہر کردی ہے اورغالب امکان ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے کم ازکم تین وزراء اگلے ایک دوہفتے تک اپنے اپنے عہدے کاحلف اٹھالیں گے۔ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کی جانب سے سندھ حکومت میں صوبائی وزارتوں کے لیئے جو نام تجویز کئے گئے ہیں ان میں سرفہرست جاوید حنیف کو وزارتِ بلدیات، محمدحسین کو امور نوجوان و کھیل کا وزیر جبکہ رعنا انصار کو خواتین اور انسانی حقوق کی صوبائی وزارت کا قلم دان دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ایم کیو ایم پاکستان کی سندھ حکومت میں شمولیت کے بعد اُسے سندھ کابینہ میں ایک مشیر اور ایک معاون خصوصی کا عہدہ بھی دیا جائے گا ۔
دوسری جانب ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘میں ایم کیوایم نے سندھ کے شہری علاقوں کے لیئے سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کا اپنا دیرینہ مطالبہ بھی لکھوایا تھا۔اچھی بات یہ ہے کہ جونیئر اسکول ٹیچر ز اور پرائمری اسکول ٹیچرز کی بھرتیاں کرتے وقت سندھ حکومت نے ایم کیو ایم کے مذکورہ مطالبہ کو بھی خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، اِس بار میرٹ پر بڑی تعداد میں شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والوں نوجوانوں کو جے ایس ٹی اور پی ایس ٹی کی سرکاری ملازمتوں کے تقررنامے تقسیم کیئے ہیں ۔ شاید یہ تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کی جانب سرکاری ملازمتوں پر تعینانی کے لیئے صرف اور صرف میرٹ کی سختی کے ساتھ پاس داری کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔ یقینا پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت بالخصوص وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ،میرٹ کی بالادستی کو فروغ دینے کا تاریخی کارنامہ انجام دینے پرغیر معمولی ستائش کے مستحق ہیں ۔ اگر سیاسی روادری کا یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہتا ہے تواُمید کی جاسکتی ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں پیپلزپارٹی کے اثرو نفوذ میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ جس کا ایک ہلکا سا’’سیاسی نظارہ‘‘ ہم صوبہ سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج کی صورت میں ملاحظہ بھی کرچکے ہیں ۔
ہماری دانست میں ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ میں درج ایم کیوایم پاکستان کے تمام مطالبات پر پیپلزپارٹی نے عمل درآمد کردیا ہے ،سوائے صرف ایک سیاسی مطالبہ کے ۔یعنی ایم کیو ایم کے سیاسی دفاتر ابھی تک نہیں کھل سکے ہیں ۔حالانکہ غیر مصدقہ خبریں یہ بھی ہیں کہ کراچی ،حیدرآباد کے بعض علاقوں میں محدود پیمانے پر ہی سہی ایم کیو ایم کے دفاتر کھل بھی رہے ہیں اور اُ ن میں مختلف نوعیت کی سیاسی سرگرمیاں بھی انجام دی جارہی ہیں ۔ تاہم چند علاقے ضرور ایسے ہیں جہاں ایم کیو ایم پاستان کو اپنی سیاسی سرگرمیاں انجام دینے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ مگر یہ رکاؤٹیں زیادہ تر ایم کیوایم رہنماؤں کے آپسی اختلافات اوراُن کی عوام میں عدم مقبولیت کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں ۔ وگرنہ سندھ حکومت یا پھر قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے کی جانب ایم کیو ایم کی خالص سیاسی سرگرمی کی راہ میں کسی بھی قسم کی انتظامی رکاؤٹ حائل نہیں کی جارہی ہے۔
دراصل ایم کیوایم کے لیئے اس وقت سب سے بڑا سیاسی چیلنج پاکستان پیپلزپارٹی نہیں بلکہ اُن کے اپنے اندرونی اختلافات ہیں ۔جبکہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت تو چاہتی ہے کہ ایم کیوا یم کراچی میں سیاسی طور پر مضبوط ہو ،تاکہ اگلے قومی و صوبائی انتخابات میں تحریک انصاف کو سندھ کے شہری علاقوں میں اپنا سیاسی کھیل کھیلنے کا زیادہ موقع نہ مل سکے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری اگلے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو سندھ سے ناک آؤٹ کرنے کے لیئے ایم کیوا یم کے ساتھ مل کر انتخابات لڑنے کا ذہن بناچکے ہیں ۔اَب فیصلہ ایم کیو ایم کی قیادت نے کرنا ہے کہ وہ کراچی و حیدرآباد سے پی ٹی آئی کا سیاسی پتہ صاف کرنے کے لیے کتنی بھرپور سیاسی قوت کے ساتھ انتخابی میدان میں اُترتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭