میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیا آرمی افسر کی کرپشن پر احتساب کے لیے 40 سال انتظار کریں، سپریم کورٹ

کیا آرمی افسر کی کرپشن پر احتساب کے لیے 40 سال انتظار کریں، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۴ دسمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو قومی فیصلوں پراحتساب سے استثنیٰ حاصل ہے، سوال یہ ہے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو حاصل استثنیٰ افواج کوکیسے دیا جاسکتا ہے؟۔سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔درخواست پر سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نے افواج پاکستان کے نیب کی دسترس سے باہر ہونے کے سوالات پر دلائل میں کہا کہ فوج افسران کو نیب استثنیٰ درست ہے، فوجی افسران سے ریٹائرمنٹ کے بعد احتساب ہو سکتا ہے۔اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں افواج کو یہ استثنیٰ حاصل ہے جو پاکستان میں ہے؟سول سرونٹس بھی ملک کی خدمت پر معمور ہے، انہیں نیب قانون میں استثنی کیوں نہیں دیا گیا؟ کیا فوجی افسر کی کرپشن کے احتساب کیلئے 40 سال ریٹائرمنٹ کا انتظار کرنا ہو گا؟انہوں نے استفسار کیا کہ آرمی افسران اگر دوران سروس کسی وفاقی یا صوبائی ادارے میں تعینات ہو تو کیا اس کا احتساب ہو سکتا ہے؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آرمی افسران پر آرمی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، نیب قانون نہیں، آرمی افسران کو نیشنل سکیورٹی کے تحت دوران سروس نیب قانون سے تحفظ دیا گیا ہے، آرمی افسران کمیشن حاصل کرنے کے بعد صرف 18 سال سروس میں رہتے ہیں، افواج پاکستان کا اندرونی کنٹرول، منیجمنٹ اور احتساب کا طریقہ کار ہے اور ان کی سزائیں بھی عام سزاؤں سے سخت ہوتی ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ آرمی افسران کا احتساب آرمی ایکٹ کے تحت ہو گا، آرمی ایکٹ نیب کے دائرہ کار کو محدود نہیں کر سکتا، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو قومی فیصلوں پر احتساب سے استثنیٰ حاصل ہے، سوال یہ ہے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو حاصل استثنیٰ افواج کو کیسے دی جا سکتی ہے؟خواجہ حارث نے کہاکہ آرمی افسران سروس میں جو بھی کریں اس کا احتساب ریٹائرمنٹ کے بعد ہو سکتا ہے، عدالت مانے یا نا مانے آرمی افسران کو تحفظ دینا ہی پارلیمنٹ کی منطق ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے استفسارپرعمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تحریک انصاف کے تمام ارکان استعفے دے چکے ہیں تاہم سیاسی حکمت عملی کے تحت اسپیکر تمام استعفے منظور نہیں کر رہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ اسپیکر ایک ساتھ تمام استعفے کیوں منظور نہیں کرتے؟ جس رکن کو مسئلہ ہوگا فیصلے پر اعتراض کر دے گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر سپیکر کو چار دن میں استعفے منظور کرنے کا حکم دیں تو کیا پی ٹی آئی کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پی ٹی آئی تو انتخابات کرانے کا ہی مطالبہ کر رہی ہے، موجودہ اسمبلی نامکمل ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ یہ پی ٹی آئی کا جانبدار نکتہ نظر ہے کہ اسمبلی نامکمل ہے، زبانی باتیں نا کریں، اسمبلی نہیں پسند تو نشستیں چھوڑدیں، استعفے منظور نہیں ہو رہے تو پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتی؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالتوں میں پی ٹی آئی کی درخواستوں سے متعلق کئی درخواستیں زیر التوا ہیں، سیاسی معاملے پر عدالت کو تبصرہ نہیں کرنا چاہیے، امر بالمعروف و ونہی عن المنکر اسلام کے بنیادی اصول ہیں، بڑی سیاسی جماعت باہر ہو تو اسمبلی فعال کیسے ہوگی یہ بھی سوال ہے۔عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کر لیے۔حکومت کے وکیل مخدوم علی خان جنوری کے دوسرے ہفتے میں دلائل کا آغاز کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں