کراچی میں بسوں کی کمی، 380 روٹس بند، لاکھوں مسافر پریشان
شیئر کریں
سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت کے باعث شہر میں 14سال کے دوران پبلک ٹرانسپورٹ کے تقریبا 380روٹس بند ہوچکے ہیں جبکہ صرف80روٹس پر بڑی بسیں، منی بسیں کوچز چل رہی ہیں، اگرچہ کہ وفاقی حکومت گرین لائن بس ریپیڈ ٹرانزٹ سسٹم اور اورنج لائن(بی آرٹی ایس) آپریٹ کررہی ہے جبکہ سندھ حکومت پیپلزبس سروس کے تحت 286بسیں درآمد کرچکی ہے اور چھ روٹس پر نئی جدید بسیں آپریشنل بھی ہوچکی ہیں۔تاہم 3کروڑ آبادی والے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی یہ سہولت اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے اور وفاقی وسندھ حکومت کی کاوش سے صرف 5فیصدٹرانسپورٹ سہولیات فراہم کررہی ہیں، ایکسپریس ٹریبوین کے سروے اور سندھ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق بڑی بسوں کے مجموعی روٹس 60 ہیں جن میں 44روٹس بند ہوچکے ہیں اور صرف 16فعال ہیں، منی بسوں کے مجموعی روٹس 234ہیں جن میں 192 بند ہوچکے ہیں اور صرف 42 پر منی بسیں چل رہی ہیں، کوچز کے 20روٹس آپریشنل ہیں اور 50روٹس بند ہوچکے۔بڑی بسوں کے بند ہونے والے معروف روٹس میں روٹ نمبر8، 8A،1C، 5، 5D، 5E، 11A، 1F، 72، 72 A، 5A، 5B،4Jشامل ہیں، منی بسوں کے بند ہونے والے معروف میں روٹس A، A1، A2، B، B1، C، C2، D، D2، F3، F4، G، G1، M، M3، N2، N3، P2، P6، S، S1، U2، U3 شامل ہیں، کوچز میں محفوظ کوچ، عمرکوچ، نیشنل پختون کوچ، نیو غازی کوچ اور دیگر کوچز کے روٹس بند ہوچکے ہیں، کوچز کی طرز پر پبلک ٹرانسپورٹ سوسائٹی کی 22سیٹوں والی گاڑیاں چلتی تھیں۔ان میں صرف 3روٹس آپریشنل باقی تمام روتس بند ہوچکے ہیں، سابق ناظم شہری حکومت نعمت اللہ خان کے دور میں چلنے والی اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کے تقریبا تمام روٹس بند ہوچکے ہیں اور صرف ایک روٹ UTS12پر چند بسیں چل رہی ہیں، سابق ناظم شہری حکومت سید مصطفی کمال کے دورمیں خریدی گئی 75 بسیں مرمت نہ ہونے کے سبب ناکارہ ہوگئیں اور اس کے تین روٹس بھی بند ہوگئے، ایکسپریس ٹریبیون کے سروے کے مطابق اس وقت شہر میں پرانی پبلک ٹرانسپورٹ کی تقریبا4ہزار گاڑیاں چل رہی ہیں۔جن میں بسوں کی تعداد 500 ہے جبکہ منی بسیں تقریبا دوہزار سے 2200اور کوچز 1500چل رہی ہیں، ٹرانسپورٹرز کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں ڈیزل وسی این جی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث نئی سرمایہ کاری ناپید ہے جبکہ پرانے ٹرانسپورٹرز بھی کاروبار میں گھاٹے کے باعث یہ کاروبار چھوڑ رہے ہیں، وفاقی وصوبائی سرکاری اداروں کی جانب سے ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے سوتیلی ماں کے سلوک کے باعث کالعدم شہری حکومت کراچی کی اربن ٹرانسپورٹ اسکیم جو 2004میں متعارف ہوئی تھی ناکام ہوگئی۔اس اسکیم کے تحت 250نئی بڑی بسیں چلائی گئیں تاہم ڈیزل کے قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے، سبسڈی کی عدم فراہمی اور دیگر وجوہات کے باعث یہ اسکیم منطقی انجام کو پہنچ گئی، بڑی بسیں چونکہ پرانی ہیں اس لیے اسکریب کی شکل میں کباڑیوں کے ہاتھوں فروخت ہورہی ہیں جبکہ منی بسیں اور کوچز تیزی سے لوڈنگ ٹرک، پانی کے ٹینکرز یا کنٹریکٹ کیرئیرز بسوں میں تبدیل ہورہی ہیں، اس صورت حال کے باعث کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ معدوم ہوتی جارہی ہیں اور ان کے روٹس بھی بند ہورہے ہیں۔