ٹرانسجینڈرایکٹ شادی شدہ پرلاگونہیں ہوتاتوغیرشادی شدہ پرکیسے ہوگا،وفاقی شرعی عدالت
شیئر کریں
وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سید محمد انور نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر اس قانون کا اطلاق جنس تبدیل کرنے کے خواہش مند شادی شدہ جوڑوں پر نہیں ہو سکتا تو غیر شادی شدہ پر کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟۔دوران سماعت پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے دلائل مکمل کرلئے ہیں، آئندہ سماعت پر این جی اورٹرانسجینڈرریسرچ کے وکیل دلائل دینگے۔ قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے خواجہ سراوں کے حقوق سے متعلق ایکٹ 2018کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کی ۔ فرحت اللہ بابر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون کے چار حصے ہیں ، پہلے حصے میں ٹرانسجینڈر کی تعریف وضع کی گئی ہے دوسرے حصے میں اسلام کے مطابق ٹرانسجینڈر کے حقوق بیان کئے گئے ہیں جبکہ تیسرے حصے میں نادرا کے ساتھ ان کی رجسٹریشن کے قانون کو بیان کیا گیا ہے جبکہ چوتھے اور آخری حصے میں بتایا گیا ہے کہ ٹرانسجینڈر کمیونٹی کی بہتری کے لئے حکومت کون سے اقدام اٹھائے گی۔فرحت اللہ بابر نے کہاکہ اس قانون میں سب سے بڑا اعتراض ٹرانسجینڈر کی تعریف پر اٹھایا گیا ہے ۔انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ٹرانسجینڈرز میں تین قسمیں پائی جاتی ہیں جن کو اس قانون کے تحت ایک ہی کیٹیگری میں رکھا گیا ہے ، تاکہ ان تینوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس قانون پر دوسرا اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ جنس کو شخصی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا لیکن سائنس یہ کہتی ہے کہ یہ سب دماغ کا کھیل ہے دماغ جس طرح سوچتا ہے جنس بھی اسی طرح تصور کی جاتی ہے۔چیف جسٹس سید محمدانور نے سوال کیا کہ کیا کسی کو 70سال کی عمر میں بھی یہ خیال آسکتا ہے کہ میری جنس تبدیل ہو گئی ہے جس پر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جی ہاں۔اگر 70سال کی عمر میں اس کا دماغ ایسا سوچ رہا ہے تو ایسا ممکن ہے جس کے بعد چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ کوئی شادی شدہ مرد یا عورت بھی ایسا محسوس کرتا ہے یا کرتی ہے تو اس کی بھی اس قانون کے تحت جنس تبدیل کی جا سکے گی؟جس پر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایسا نہیں کیا جاسکتا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگراس قانون کااطلاق جنس تبدیل کرنے کے خواہش مند شادی شدہ جوڑوں پر نہیں ہو سکتا تو غیر شادی شدہ پر کیسے لاگو ہو سکتا ہے ؟فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ دوسری معذوریوں کی طرح ایک معذوری ہے جس کو ثابت کرنے کی ضرورت اس وقت تک نہیں ہے جب تک معذور ،معذوری کے کوٹے کا طلبگار نہ ہو۔ چیف جسٹس نے فرحت اللہ بابر سے سوال کیا کہ جو لوگ شخصی محسوسات کی وجہ سے نادرا میں جنس کی تبدیلی کیلئے رجوع کریں گے ان کی رجسٹریشن کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ جس پر فرحت اللہ بابر نے نادرا ایکٹ رول 3کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی درخواست گزار اپنا نام جنس کی تبدیلی کی درخواست دیتا ہے تو نادرا اس بات کا پابندہوگا کہ اس کو نیا نام اور نئی جنس کے تحت ایکٹ کیٹیگری میں شناختی کارڈ جاری کریں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نادرا کے پاس ایسا کیا طریقہ کار ہے کہ وہ شخصی محسوسات کو چیک کریں ۔ اس پر نادرا کے نمائندے نے بتایا کہ ہمارے پاس ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔