ٹوئٹر کی ممکنہ موت،کیا ہماری دنیا بدل سکتی ہے؟
شیئر کریں
سماجی رابطوں کی معروف ترین ویب سائیٹ ٹوئٹر کا سب سے بنیادی وصف اور خوبی ہی یہ تھی کہ اِس نے اپنے صارفین کو کم سے کم الفاظ میں اپنا نقطہ نظر اور مافی الضمیر دنیا بھر کے سامنے من و عن بیان کرنے کی آزادی دی ہوئی تھی۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ اپنے صارفین کو اظہار رائے کی مکمل اور مادرپدر آزادی دینے والا ٹوئٹر آج خود، اپنے نئے مالک ایلون مسک کے ہاتھوں میں قید ہو جانے کے بعد آزادی کے لیئے اپنے پَر پھڑپھڑا رہا ہے ۔ ویسے تو سب کو ہی یہ معلوم تھا کہ متلون مزاج ایلون مسک ، ٹوئٹر کو خریدنے کے بعد تبدیلی کی کھٹالی سے گزارکر اِسے ’’کندن‘‘ یعنی زیادہ سے زیادہ منافع بخش بنانے کی ضرور کوشش کریں گے۔مگر ٹوئٹر کے کسی بھی صارف کو یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا ایلون مسک ٹوئٹر کے نازک اندام جسم سے نفع کشید کرتے کرتے اِسے موت کی دہلیز تک پہنچانے کے بعد پھر خود ہی بیچارے ٹوئٹر کی قبر کی تصاویر اپنے اکاؤنٹ پر شیئر کرنے لگیں گے۔
جی ہاں! واقعی ایلون مسک نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک میم شیئر کی ہے ، جس میںایک بوسیدہ سی قبر پر ٹوئٹر کے نام کا کتبہ لگاہوا ہے۔مذکورہ تصویر وائر ل ہونے کے بعد سوشل میڈیا کی دنیا میں گویا ایک بھونچال آگیا ہے اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر سے منسلک ہر صارف کے ذہن میں یہ خدشہ کلبلانے لگا ہے کہ کہیں ٹوئٹر اگلے چند ماہ یا ہفتوں میں مرحوم تو ہونے والا نہیں ہے۔ بظاہر ٹیکنالوجی کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایلون مسک نے ٹوئٹر کے کتبہ والی میم شیئر کرکے اپنے صارفین کے ساتھ صرف ایک’’کاروباری مذاق ‘‘کرتے ہوئے یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ’’ وہ ٹوئٹر کمپنی میں جس قدر تبدیلیوں کا تہیہ کرچکے ہیں ، وہ انہیں اَب پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دَم لیں گے۔ یعنی وہ ٹوئٹر کو اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق ڈھالنے کے لیے کسی بھی آخری حد تک جاسکتے ہیں‘‘ ۔ نیز ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ایلون مسک ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں اور انہوں نے ٹوئٹر پیسہ کمانے کے لیئے ہی مہنگے داموں خریدا ہے ۔ لہٰذا ، وہ کیوں چاہیں گے کہ انتہائی مہنگے دام پر خریدی ہوئی ٹوئٹر کمپنی بغیر نفع کمائے ہی بند کردیں ‘‘۔
دراصل ایلون مسک نے ٹوئٹر کی قبر کی تصویر شیئر کرکے اپنے اربوں صارفین کو صرف یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر کسی صارف کو ٹوئٹر پر رہنا ہے تو پھر اُسے ہی نئے ٹوئٹر کی ہرتبدیلی کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہوگا اور ٹوئٹر میں رونما ہونے والی ہر تبدیلی کو خوش آمدید کہنا ہوگا۔کیونکہ ایلون مسک تو کسی بھی صورت ٹوئٹر صارفین کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے نہیں ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹوئٹر کی موت کی خبر کتنی ہی غیر حقیقی کیوں نہ ہو، بہرحال اِس چھوٹی سی خبر نے دنیائے انٹرنیٹ پر ایک سونامی آنے جیسا ماحول پیداکردیا ہے اور عام صارفین تو چھوڑیں، دنیا کی اہم ترین شخصیات بھی جن میں سیاست دان ، گلوکار، اداکار ، صحافی ، ادیب ،دانشور اور بڑے بڑے کاروباری حضرات شامل ہیں ، ٹوئٹر کے مستقبل کے حوالے سے سخت فکر مند پائے جاتے ہیں ۔بعض دانش و بنیش حلقوں کی جانب سے تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ٹوئٹر کی موت کے بعد دنیا کا سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل بھی ہوسکتاہے۔ خاص طور پر و ہ ممالک جہاں بعض سیاسی جماعتیں اپنے مقبولیت کا پیمانہ ہی ٹوئٹر کے فالوورز کو قرار دیتی تھیں ، آخر اُن سیاسی جماعتوں کا کیا بنے گا؟۔
واضح رہے کہ پاکستان میں تحریک انصاف کو بھی باآسانی ایک ایسی سیاسی جماعت قرار دیا جاسکتاہے ، جن کی تمام تر سیاسی اُٹھان ٹوئٹر پر لمحہ بہ لمحہ ہونے والے ٹوئٹس کی مرہونِ منت ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایلون مسک کو اپناایک ٹوئٹ ٹیگ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ٹوئٹر کے بغیر دنیا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،براہ مہربانی مسئلے کو حل کریں اور ہمیں پریشان نہ کریں‘‘۔فواد چوہدری کے مذکورہ ٹوئٹ سے زیادہ تر صارفین یہ مطلب مراد لیتے دکھائی دیئے کہ ’’ٹوئٹر کے بغیر تحریک انصاف کا پاکستان کے سیاسی اُفق پر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا‘‘ ۔ حالانکہ ہماری دانست میں ایسا نہیں ہے کہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف ٹوئٹر کے بغیر اپنی سیاسی مقبولیت کو برقرار نہیں رکھ سکتے ،لیکن یہ بھی ایک بڑی سچائی ہے کہ ٹوئٹر کو اگر تحریک انصاف سے سیاسی سرگرمیوں سے منہا کردیا جائے تو پھر اِس جماعت کو دیگر سیاسی جماعتوں پر سوشل میڈیا میں جو غیر معمولی برتری حاصل ہے ، وہ کافی حد تک ختم ہوجائے گی اور اگلے قومی انتخابات سے پہلے یا قریب ایسا اچانک سے ہوجانا تحریک انصاف کے لیے ایک بہت بڑے سیاسی نقصان کا باعث ضرور بن سکتاہے۔
اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’ریسٹ اِن پیس ٹوئٹر‘ ‘ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے جس کی وجہ ٹوئٹر کی جانب سے ملازمین کے نام وہ پیغام ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کمپنی کے تمام دفاتر کو 21 نومبر تک بند کیا جا رہا ہے۔بظاہراس عجیب و غریب فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تاہم عالمی ذرائع ابلاغ پر خبریں گردش کررہی ہیں کہ ٹوئٹر کے نئے مالک ایلون مسک کی جانب سے زیادہ گھنٹے کام کرنے کی شرط عائد کیے جانے پر پرانے ٹوئٹر ملازمین کی ایک بڑی تعداد ملازمت چھوڑ رہی ہے۔کیونکہ ایلون مسک نے کمپنی کا انتظام سنبھالنے کے فوراً بعد ہی تمام ملازمین کو ایک ای میل کردی تھی کہ ’’ان کو بغیر کسی اضافی اُجرت کے زیادہ وقت کام کرنا ہوگا یا پھر ملازمت سے مستعفی ہونا ہوگا اور جو ملازمین زیادہ وقت کام بھی نہیں کریں گے اور مستعفی بھی نہیں ہوں گے ، اُن کو کمپنی کی طرف سے تین ماہ کی تنخواہ دے کر فارغ کردیا جائے گا۔ اس ای میل کے موصول ہونے کے بعد ملازمین کی اکثریت نے ایلون مسک کے زیرنگیں کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی ملازمت سے استعفا دے دیا۔ جبکہ اس سے پہلے ایلون مسک نے کمپنی کے آدھے سے زائد ملازمین کو یہ کہتے ہوئے ہی خود ہی برطرف کر دیا تھا کہ یہ ملازمین کمپنی پر ایک بہت بڑا مالی بوجھ تھے اور ٹوئٹر کو ان کی وجہ سے روزانہ چار ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو رہا تھا۔
واضح رہے کہ 2006 میں بننے والی ٹوئٹر سوشل میڈیا سائیٹ، جسے 2013 میں’ ’انٹرنیٹ کا ایس ایم ایس‘‘ بھی قرار دیا گیا تھا، کو دنیا بھر میں بلا شک و شبہ کروڑوں لوگ استعمال کرتے ہیں۔رواں برس ایلون مسک نے 44 ارب ڈالر کے عوض ٹوئٹر کو خرید لیا تھا۔ایلون مسک کے کمپنی کا کنٹرول سنبھالنے سے قبل ٹوئٹر کے کُل مستقل ملازمین کی تعداد تقریبا ساڑھے سات ہزار تھی۔اس کے علاوہ کمپنی نے ہزاروں کی تعداد میں کنٹریکٹ ملازمین بھی رکھے ہوئے تھے جن کی اکثریت کو ایلون مسک نے پہلے دن ہی نکال دیا گیا تھا۔المیہ ملاحظہ ہو کہ صرف چند ہفتوں میں ٹوئٹر ملازمین کی تعداد 2 ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے اور غالب امکان یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں باقی بچ جانے والے ملازمین میں سے بھی 80 فیصد ملازمین کوبرخاست کردیا جائے گا اور ٹوئٹر کے تمام دفاتر کو تالے لگا دیئے جائیں گے۔
ٹوئٹر صارفین کے لیے سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ جب اگلے ایک یا دو ہفتوں میں ٹوئٹر کے تمام دفاتر مقفل ہوجائیں گے تو ٹوئٹر کیسے کام کرے گا یاوہ اپنے صارفین کو کیسے خدمات مہیا کرے گا؟۔دراصل ایلون مسک ٹوئٹر کو کم سے کم ملازمین کے ذریعے چلانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اُس کی خواہش ہے کہ صرف درجن بھر ملازم مصنوعی ذہانت سے لیس مشینوں کی مدد سے دنیا بھر میں ٹوئٹر کو فعال رکھیں ۔ تاکہ ٹوئٹر کمپنی کے اخراجات نہ ہونے کے برابر ہوں اور اس کے حاصل ہونے والا منافع لامحدود ہو۔ یا د رہے کہ ایلون مسک دنیا پر مشینوں کی حکومت کا قائل ہے اور اُس نے ماضی سے لے کر اَب تک جتنی بھی مصنوعات فروخت کے لیئے پیش کی ہیں ، اُن کے استعمال کے لیے انسانی عمل دخل نہ ہونے کے برابر درکار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹیسلا کی کاریں بغیر ڈرائیور کے چلتی ہیں ، اور ٹیسلا کی ایک کار فقط 22 پارٹس سے مل کر بنتی ہے اور یہ تا حیات مینٹینس فری ہوتی ہے ۔ یعنی ٹیسلا کے دعوی کے مطابق اُن کی بنائی گئی کار میں کوئی بھی خرابی واقع ہوجائے گی تو ٹیسلا کمپنی اُس کے عوض دوسری نئی کار اپنے صارف کو دینے کا دعوی کرتی ہے ۔
ایلون مسک کا ایک ایسا ہی منفرد ٹیک منصوبہ ’’سٹار لنک سٹیلائٹ انٹر نیٹ ‘‘ کا بھی ہے ۔جس کی بدولت دنیا کے دور دراز علاقوں میں بھی بھاری بھرکم انٹرنیٹ انفراسٹکچر کے بغیر تیز ترین انٹرنیٹ فراہم کیا جارہاہے۔ یعنی انٹرنیٹ ٹاور ، فائبر آپٹیکل کیبل وغیرہ کے بغیر یہ کمپنی دنیا بھر میں تیز ترین انٹرنیٹ فراہم کررہی ہے ۔ اسٹار لنک سیٹلائٹ، اسپیس ایکس کا پراجیکٹ ہے اور اسٹار لنک ابھی 40 ممالک میں انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کر رہا ہے۔ایلون مسک نے روسی حملے کے فوری بعد یوکرین میں سٹار لنک کی سروس کو فراہم کردی تھیں اور سٹار لنک کی تقریباً 15,000 ڈشز اور راؤٹرز یوکرین بھجوائے دیے تھے جس کی بدولت یوکرینی عوام حالتِ جنگ میں بھی انٹرنیٹ استعمال کرنے کے قابل ہوگئے۔ یوںسٹار لنک نے جنگ کے دوران بھی یوکرین میں رابطے بحال رکھے اور ملک میں سب کچھ تباہ وہ برباد ہوگیا تھا ،اُس وقت بھی یوکرین میں انٹرنیٹ چل رہا تھا اور حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی تک روسی افواج کو اسے بند کرنے کا کوئی طریقہ نہیں مل سکا۔کیونکہ سٹار لنک کو انسانی وسائل نہیں بلکہ مشینوں کی مصنوعی ذہانت چلاتی ہے۔ بالکل اسی طرز پر ایلون مسک، ٹوئٹر کو بھی چلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لیے خاطر جمع رکھیے کہ ٹوئٹر کمپنی بند نہیں ہونے جارہی ،بلکہ ٹوئٹر، عن قریب ٹیکنالوجی کے ایک نئے جہان میںقدم رکھنے جارہاہے۔
٭٭٭٭٭٭٭