ناصر بشیر اور افتخار مجاذ کے اعزاز میں تقریب پذیرائی
شیئر کریں
گزشتہ دنوںدلاور چودھری،ناصر بشیر اور افتخار مجاز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے الحمراءادبی بیٹھک میں ایک خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔اس تقریب کی میزبان ورلڈ کالمسٹ کلب تھی۔یہ صحافیوں، کالم نگاروں،ادیبوں کی تنظیم ہے جو سال مکمل ہونے سے قبل ہی اپنے زیر انتظام کئی بڑے پروگرام منعقد کر چکی ہے ۔مذکورہ پروقار تقریب پذیرائی بھی اسی سلسلہ کا ایک حصہ تھی۔میں جب تقریب میں پہنچا تو دیکھا کہ سینکڑوں کالم نگاروں کے جھرمٹ میں تنظیم کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر اجمل نیازی اور مرکزی چیئرمین ایثار رانا،مرکزی صدر محمد ناصر اقبال خان،جنرل سیکرٹری ذبیح اللہ بلگن مہمانان گرامی ناصر بشیر اور افتخار مجاز کے ارد گرد بیٹھے تھے لیکن دلاور چودھری نظر نہ آئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں کسی ہنگامی مصروفیت کی وجہ سے لاہور سے باہر جانا پڑا ہے جس کی وجہ سے وہ تقریب میں شریک نہ ہو سکے۔کالم نگاری میں ناصر بشیر اور افتخار مجاز درویشانہ ہستیاں ہیں۔ ناصر بشیر جتنے بڑے شاعر ہے اتنے بڑے ہی کالم نگار ہے۔ ان کے کالم بھی حب الوطنی کے عکاس ہوتے ہیں اور شاعری بھی دردمندانہ۔وہ کسی غریب کو ننگے پاﺅں دیکھ لیں تو شعر کی صورت میں اپنے درد کا اظہار کرتے ہیں۔کسی بھی سانحے پر وہ چپ نہیں رہتے، ہمیشہ ان کی شاعری آنسو بہاتی ہے۔ان کے کالم پڑھیں تو ان میں پاکستان و اسلام سے محبت ،خلوص اور اتحاد و امن کا درس ہوتا ہے۔ناصر بشیر کی ذات کو دیکھیں تو نہ کسی نے ان کی زبان و قلم سے دکھ اٹھایا اور نہ ہاتھ سے۔ کئی عشرے ہونے کو ہیں، ایک روزنامے میں کالم لکھ رہے ہیں،جہاں سے آغازکیا ،آج بھی اسی ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ناصر بشیر نے کسی اور اخبار کی طرف قدم نہ بڑھا یا یہ ان کے سچے اور کھرے پن کا ثبوت ہے ۔بہت سی خوبیاں ناصر بشیر کی ذات سے منسلک ہیں اور بہت سے اوصاف افتخار مجاز کی ذات کا حصہ ہیں۔ہمیشہ مسکرا کر بات کرنا افتخار مجاز کا طرہ امتیاز ہے۔مقررین نے دل کھول کر دونوں صاحبان کرام کو خوب داد دی اور خراج تحسین پیش کیا۔جتنی شاندار تقریب تھی اس پر بلاشبہہ ورلڈ کالمسٹ کلب اعزاز اور شاباش کی مستحق ہے۔مگر ہمارے ہاں حکومتیں ایسے لوگوں کو اعزاز نہیں دیتی بلکہ یہاں تو زندہ انسان چاہے کس قدر ملک کا خدمت گزار کیوں نہ ہو اسے کبھی اہمیت نہیں دی گئی، ہاں مرنے کے بعد کچھ خوش نصیب ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کے نام پر کوئی نہ کوئی تقریب ضرور ہو جاتی ہے۔برسی پر لاکھوں روپے لگا دیئے جاتے ہیں مگر کسی لکھاری یا ادیب کو زندگی میں نہیں پوچھا جاتا۔ہمارے معاشرے میں اس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔
ورلڈکالمسٹ کلب کے سرپرست ،دانشور، شاعر اورکالم نگارڈاکٹرمحمداجمل نیازی، مرکزی چیئرمین وکالم نگار ایثاررانا، مرکزی صدر محمد ناصر اقبال خان، سیکرٹری جنرل ذبیح اللہ بلگن، مرکزی سینئر نائب صدررابعہ رحمن ، چیئرپرسن وومن ونگ ڈاکٹرعمرانہ مشتاق، منشاقاضی، ناصر چوہان ایڈوکیٹ، تاجر رہنما نعیم میر، تاثیر مصطفی، ممتاز راشد لاہوری، اعتبار ساجد، نثارقادری،شاہین بھٹی ، علی نوازشاہ و دیگر اہل قلم نے اس تقریب سے خطاب کیا جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی سیکرٹری مالیات آصف عنایت بٹ،محمدنصیرالحق ہاشمی، شاہدہ مجید، رباب نقوی، عابدکمالوی، ممتاز حیدر اعوان، محمد شاہد محمود، میاں محمداشرف عاصمی ایڈووکیٹ، نسیم الحق زاہدی، جاویداقبال،جمیل بھٹی، ضیاءالحق نقشبندی، اخترعلی بدر،ملک غضنفراعوان، محمد لطیف رانا،اقبال ساجد، فراست بخاری، مرزا رضوان ، محمداورنگزیب قادری،حسیب پاشا، مظہر مجاز، ناصررضوی، اصغر بھٹی ،اعجازمہاروی ،مہران اجمل خان ، میاں اویس علی، فاروق تسنیم، شہبازاکمل جندران، محمد اورنگزیب، عاصم علی،ماجد امجد ثمر،آر ایس مصطفی، محمد راشد تبسم،عبدالوارث ساجد،کنول فیروز، نواز کھرل ، سیّد فیروزعطاءلئیق ،حفیظ شہزادہاشمی ،ملک ریاض حیدر ،حسیب چوہان،شبنم ناصر، مسرت ،صفیہ سلطانہ ،صفیہ ملک اورکرن وقار، عبدالحنان سمیت متعدد کالم نگار اورشعراءتقریب میں شریک تھے۔
ورلڈ کالمسٹ کلب کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر اجمل نیازی سے میرا بڑا دیرینہ تعلق ہے،ہمیشہ میرے بارے میں محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔جس کا میں شکریہ اداکرنے سے قاصر ہوں۔ ڈاکٹر محمداجمل نیاز ی کا کہنا تھا کہ بولنایعنی اظہارکرنا بھی اچھی بات ہے لیکن سننا اس سے بھی زیادہ اچھا ہے ،ہمیں ایک دوسرے کے دکھ دردسننا چاہئے ۔ تقریب پذیرائی کی بڑی بات یہ ہے اتنی کثیر تعداد میں اہل قلم اکٹھے ہوئے ہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ تین گھنٹے گز رنے کے باوجودکسی قسم کی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوئی جس کا اظہار حاضرین میں سے ہر ایک نے بر ملاءکیا۔ تقریب کے آغاز سے اختتام تک مسلسل مہمان آتے رہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہل قلم کے باہمی روابط مضبوط ہو رہے ہیں۔ افتخار مجاز اور پروفیسر ناصر بشیرنے اپنی اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے شرکاءکوشعر وادب کے شعبہ میں اپنی مہم جوئی اورکامیابیوں کے دلچسپ واقعات سنائے جس سے شرکاءبہت محظوظ ہوئے۔ناصر بشیر کا کہنا تھا کہ میں نے جب اخبار جوائن کیا تو اس وقت ڈاکٹر اجمل نیازی ادبی صفحہ کے انچارج تھے مجھے شوق تھا کہ اس صفحہ پر میںکام کروں ۔میں نے ایڈیٹر سے کہا کہ یہ صفحہ مجھے دے دیں، پہلے تو وہ مذاق سمجھے لیکن میں نے جب کہا کہ میں سنجیدہ ہوں اور اس صفحہ پر کام کروں گا تو انہوں نے ادبی صفحہ مجھے دے دیا۔ میں نے اس پر چند دن تو کا م کیا لیکن اس کے بعد نہ کر سکا اور پھر ڈاکٹر اجمل نیازی کے پاس چلا گیا البتہ میں نے انکے معاون کی حیثیت سے ادبی صفحہ پر کام کیا۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی چیئرمین ایثاررانا کا کہنا تھاکہ ورلڈ کالمسٹ کلب کے پلیٹ فارم سے شعر و ادب کی قدآورشخصیات کے کام کی پذیرائی کا سلسلہ جاری رہے گا۔آئندہ جن شخصیات کے اعزاز میں تقریبات کا اہتمام ہو گا ان کے اہل خانہ کو بھی مدعوکیا جائے گا تا کہ ان شخصیات کے فیملی ممبرز کو بھی پتہ چل سکے کہ ان کے خاندان کے سربراہ کا معاشرے میں کیا مقام ہے۔
ورلڈ کالمسٹ کلب نے یہ شاندار پروگرام کیا کہ خراج تحسین کے لئے کسی بھی کالم نگار کے مرنے کا انتظار نہیں کیا بلکہ ان کی زندگی میں ہی اسے خراج تحسین پیش کیا اور ملک و قوم کے لئے ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ورلڈ کالمسٹ کلب نے اس سلسلے میں جن کالم نگاروں کا انتخاب کیا وہ سچے مسلمان ،پکے پاکستانی اور کھرے انسان ہیںاور ایسے لوگ جو خلوص اور سچائی کے سانچے میں ڈھلے ہوں، ان کی پذیرائی بہت ضروری ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کام کا آغاز ورلڈ کالمسٹ کلب نے کر دیا ہے جسے کسی صورت نہیں رکنا چاہئے۔پاکستان اور قوم وملت کا سب سے بڑا اثاثہ یہی لوگ ہوتے ہیں جو قلم کے پاسبان کا کردار ادا کرتے ہیں اور قلم کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دیتے ۔ایسے لوگ محسن بھی ہوتے ہیں اور محب بھی ،بالکل جیسے دلاور چوہدری ، ناصر بشیراور افتخار مجازہیں۔مذکورہ تقریب میں اہل قلم کی بڑی تعداد موجود ہونے کے باوجود دلاور چوہدری کی کمی میں نے بہت محسوس کی ہے کیونکہ میرا ان سے بڑی محبتوں والا یارانہ ہے ،میں تو ان کے لئے وہاں پھول بھی لے کر گیا تھا۔ان کی شیلڈ بھی ورلڈ کالمسٹ کلب کے پاس امانت ہے۔ میں توقع کرتاہوں کہ ورلڈ کالمسٹ کلب والے دلاور چوہدری کو آئندہ کسی پروگرام میں دوبارہ دعوت دیں گے اوراہل قلم کی حوصلہ افزائی کریں گے اور ہمیشہ مسکرا کر ملنے والے ایثار رانا اور محمدناصر اقبال خان مجھے بلانا بھی یقینا نہیں بھولیں گے۔اس موقع پرورلڈ کالمسٹ کلب کی جانب سے مہمانوں کو شیلڈ د ی گئیں اور جب ناصر بشیر کو شیلڈ دینے کا اعلان کیا گیا تو اسٹیج سیکرٹری ذبیح اللہ بلگن نے میرا نام پکارا کہ راقم ناصر بشیر کو شیلڈ دیں گے ،افتخار مجاز کو ڈاکٹر اجمل نیازی نے شیلڈ دی اور یوں یہ خوبصورت مجلس اختتام پذیر ہوئی۔پروگرام کے آخرمیں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ہر ماہ اہل قلم کے اعزازمیں تقریب پذیرائی کا سلسلہ جاری رہے گا اور ماہ مارچ میں منفردلہجے کے شاعراور کالم نگار مظہر برلاس ،معروف شاعر وکالم نگار اعتبار ساجد اور نثار قادری کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کا انعقاد کیا جائے گا۔
٭٭