تیاریاں مکمل ہیں،کراچی میں 15 روز میں بلدیاتی انتخابات کراسکتے ہیں، الیکشن کمشنر سندھ
شیئر کریں
سندھ ہائیکورٹ نے کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات کروانے سے متعلق جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی درخواستوں پر سماعت کی۔چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے الیکشن کمشنر سے استفسار کیا کہ کب الیکشن کرائیں گے؟ آپ مرحلہ وار کرادیں، پہلے فیز میں حیدر آباد دوسرا کراچی میں کرادیں۔ الیکشن تو کروانا پڑیں گے۔ ہم آئی جی کو احکامات دے دیتے ہیں کہ سیکورٹی فراہم کرے۔ آپ کراچی ڈویڑن میں کتنے دنوں میں الیکشن کروا رہے ہیں۔ یہ سپریم کورٹ کے احکامات ہیں۔چیف الیکشن کمشنر سندھ نے جواب دیا کہ جی ہم الیکشن کرانے کے لیے تیار ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرکے کیوں توہین عدالت کر رہے ہیں، ایک ساتھ الیکشن نہیں ہو سکتے تو مرحلہ وار کروائے جائیں۔چیف جسٹس نے صوبائی الیکشن کمیشن سے کہا کہ آپ خود قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں، کیا پولیس آپ کو نفری نہیں دے رہی؟الیکشن کمشنر سندھ نے کہا کہ ہم الیکشن کرانے کو تیار ہیں، پولیس اور وزیر داخلہ سکیورٹی فراہم کریں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کراچی ڈویڑن میں کتنے دنوں میں الیکشن کرا دیں گے؟ الیکشن کمشنر سندھ اعجاز چوہان نے بتایا کہ آئندہ 15 دنوں میں الیکشن کرا دیں گے۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے صوبائی حکومت کا نہیں۔ ہم پہلے مرحلے کا الیکشن کرا چکے ہیں اب بھی کرانے کیلئے تیار ہیں۔ الیکشن کمیشن کل کرادے تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں مگر ہم نے زمینی حقائق بتا دیئے ہیں، پولیس اور رینجرز سیکیورٹی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ایم کیو ایم کے وکیل طارق منصور ایڈوکیٹ نے موقف دیا کہ ہمیں بھی سن لیا جائے۔ چیف جسٹس نے ایم کیو ایم کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ الیکشن چاہتے ہیں یا نہیں؟ الیکشن چاہتے ہیں ناں؟ طارق منصور ایڈوکیٹ نے موقف دیا کہ آپ یہ درخواست دیکھ لیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہمیں یہ پلندہ نہیں چاہئے ہمیں بتائیں کیا چاہتے ہیں؟ عدالت نے خواجہ اظہار کو بولنے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب آپ بیٹھ جائیں سابق میئر صاحب آپ بھی بیٹھ جائیں۔ایم کیو ایم پاکستان کے وکیل نے موقف دیا کہ ہمارا بنیادی خدشہ یہ ہے کہ ترامیم کے بغیر شفاف الیکشن نہیں ہوسکتے۔عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے کھل کر بتائیں۔ طارق منصور ایڈوکیٹ نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی حلقہ بندیاں اور ووٹر لسٹوں سے متعلق درخواستیں زیر التوا ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ چاہتے ہیں الیکشن بعد میں ہوں پہلے آپ معاملات حل ہوں؟ آپ چاہتے ہیں الیکشن نہ ہوں؟، آپ کا کہنا ہے ترامیم سے پہلے الیکشن نہ ہوں؟ایم کیو ایم کے وکیل نے موقف دیا کہ ہم چاہتے ہیں سپریم کورٹ کے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کے فیصلہ پرعمل درآمد کیا جائے۔پی ٹی آئی کے وکیل عبد الوہاب بلوچ نے موقف دیا کہ 3 بار الیکشن ملتوی کردیئے گئے۔ کہتے ہیں نفری کی کمی ہے اور لانگ مارچ کیلئے 6 ہزار نفری اسلام آباد بھیج دی گئی۔جماعت اسلامی کے وکیل عثمان فاروق ایڈوکیٹ نے موقف اپنایا کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی ایسی ہی درخواست سپریم کورٹ مسترد کرچکی ہے۔ جس میں الیکشن رکوانے کی کوشش کی گئی تھی، یہ سارے نکات سپریم کورٹ مسترد کرچکی ہے۔ ایم کیو ایم نے سپریم کورٹ میں کہا تھا ترامیم ہونے تک الیکشن روکے جائیں۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فوری بلدیاتی الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔ الیکشن کروانے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے روکنے کے لئے درخواست نہیں کی جاسکتی۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔سماعت کے بعد صوبائی الیکشن کمشنر اعجاز چوہان نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ الیکشن کی ایڈمنسٹریٹیو طور پر تمام تیاریاں مکمل ہیں جس سے عدالت کو آگاہ کردیا ہے، سیکیورٹی کے لیے 45 ہزار کی نفری درکار ہوگی۔