دنیا کولڑائی کا اکھاڑہ بنانے کی کوشش
شیئر کریں
دنیا مسائل کے گرداب میں دھنستی جارہی ہے مگر ادراک کے باجودعالمی طاقتیں حل کرنے سے گریزاں ہیں جس کے نتیجے میں سماجی بہبود کے کاموں سے توجہ ہٹ کر ہتھیاروں کی پیداوار بڑھانے اور خریدنے مرکوزہوچکی ہے یہ رجحان کسی مزید بڑی جنگ کے خدشے کو قوی تر کرنے لگا ہے اسی رجحان کے پیشِ نظر واراشپغل جرمن اخبار کو دیے ایک انٹرویومیں معروف ماہرِ معاشیات نوریل روبینی نے اقوم ِ عالم کی توجہ تاریخ دان نیال فرگوسن کے اُس دعوے کی طرف دلائی ہے جس میں انھوں نے کہا کہ یہ خوش قسمتی کی بات ہو گی کہ دنیا کو 1970جیسے معاشی بحران کا سامنا ہو اور وہ 1940کی دہائی جیسی تباہ کُن جنگ سے محفوظ رہے لیکن دنیا کو لڑائی کا کھاڑہ بنانے کی کاوشیں ثمرآور ہونے لگیں جس کی بناپر حالات بڑے ٹکرائو جیسے بننے لگے ہیں مگرنہ صرف بڑی طاقتیں لاپرواہ اور بے نیاز ہیں بلکہ اُن کا طرزِعمل جلتی پر تیل ڈالنے جیساہے یہ رویہ امن کے امکانات کمزور کررہا ہے یہ خیال بھی بڑی حد تک درت ہے کہ بڑی معاشی اور دفاعی طاقتیں جتنی توجہ ٹکرائو جیسی فضا بنانے پر دیتی ہیں اُس کا نصف بھی امن قائم کرنے پردیں تو امن کا خواب پورا ہو سکتاہے مگر اکثر اوقات امن کی کوششوں کا حصہ بننے سے گریز کیاجاتا ہے یہ طرزِ عمل کسی بڑی جنگ کے آثار بڑھانے کا سبب ہے۔
نوریل روبینی نے2008 اور2009 کے مالیاتی بحران کی بھی قبل ازوقت ہی پیش گوئی کردی تھی یہ پیش گوئی پوری ہونے سے انھیں مقبولیت ملی بلکہ وال اسٹریٹ جیسے اخبار نے اُن کے لیے ڈاکٹر ڈوم نام مختص کردیا دنیابھر میں نوریل روبینی کی پیش گوئیاں تو سنجیدہ لی جاتی ہیں مگر بڑی عالمی طاقتوں کے رویے سے ایسی سنجیدگی کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی اب جبکہ روس و یوکرین جنگ معاشی اور دفاعی میدانوں سے آگے خلا تک چلی گئی ہے اور وسائل وتجارت کے ساتھ ٹیکنالوجی سمیت سوشل میڈیا تک میں دنیاکی تقسیم واضح ہے عالمی طاقتیںاِس تقسیم کی خلیج کو کم کرنے پر توجہ دینے سے پہلو تہی کررہی ہیں حالانکہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اور کسی ایک حصے میں چھڑنے والی جنگ یا معاشی بدحالی کے اثرات سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے پھربھی دنیا کو لڑائی کا اکھاڑہ بنانے کی کوشش ناقابلِ فہم ہے سیاسی حل کے زریعے شام میں جاری لڑائی سے بچناممکن تھا لیکن ایسی کوئی سرگرمی سے دانستہ گریز کیا گیا اور لڑنے والے گروپوں کو ہتھیاریوں سے مسلح کیا گیاجس سے ایک ایسی بڑی ہجرت نے جنم لیاجو مغربی ممالک کے لیے آج بھی پریشان کُن ہے یوکرین جنگ سے بھی محفوظ رہنا بہت آسان تھا مگر امریکہ اور مغربی ممالک نے جان بوجھ کر روس کو حملے کا بہانہ فراہم کیا تاکہ ہمیشہ کے لیے سبق سکھایا جا سکے مگر روس کوتو سبق ملا ہے یا نہیں لیکن نئی شروع ہونے والی مہاجرت مغربی ممالک کے وسائل نگلتی جا رہی ہے اور اِس کے نتیجے میں گیس ،تیل ،خوراک،مہنگائی اور تجارت جیسے مختلف نوعیت کے مسائل جڑیں پکڑرہے ہیں غریب ممالک کی بات کیا کریں فرانس ا وربرطانیہ جیسے معاشی طور پر مضبوط اور آسودہ حال ممالک میں بھی مہنگائی سے بلبلاتی عوام احتجاجی مظاہرے کرنے لگی ہے اِس عوامی اضطراب کو کم کرنے کے لیے برطانیہ اپنے فوڈ بینکوں سے ایسے کوپن کا اجرا کرانے پر مجبورہے جن سے کم آمدن والے لوگ تین دنوں کے لیے ضرورت کی اشیا لے سکتے ہیں مگر یہ ایک محدود بندوبست ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جن سے دنیا کو لڑائی کا اکھاڑہ بنانے کی حوصلہ شکنی ہو ۔
روس کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کو گیس فراہم کرنے والی نارڈ اسٹریم پائپ لائنزکو دھماکوں سے اُڑانے کاکام برطانوی ہدایات و تعاون کی بناپرہی ممکن ہوا ہے بظاہر ایسی کسی نوعیت کی کاروائی کے الزام کی جواب میں تردید کی جاتی ہے مگر دونوں ممالک میں جاری آویزش کے تناظر میںایسے کسی امکان کو مکمل طور پر رَد کرنا ممکن نہیں کیونکہ جو صرف روس کو سبق سکھانے کے لیے یوکرینی عوام کو جنگ کی دلدل میں دھکیل کر انسانی زندگیوں سے کھیل سکتے ہیں اُن کی طرف سے روسی معیشت کو نقصان سے دوچار کرنے کااقدام بعید ازقیاس نہیں ماسکو کی طرف یہ بھی کہا گیا ہے کہ برطانوی سفیر کو بلا کر کریمیا میں روسی بیڑے بلیک سی فلیٹ پر حملے میں برطانیہ کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد فراہم کیے جائیں گے بعد میں یہ شواہد عوام کے لیے شائع بھی کیے جائیں گے روس دعویُ کرتا ہے کہ برطانوی فوجی دستوں نے کریمیا میں روسی بحری بیڑے پر ڈرون حملے میں کیف حکومت کی مددکی ہے غیر مستند ہی سہی اب تو پینٹاگون سے وابستہ زرائع کی طرف سے بھی اعتراف سامنے آچکا ہے کہ امریکی فوجی بھی جنگ زدہ علاقے یوکرین کی سرزمین پر موجود ہیںظاہر ہے یہ موجودگی کسی تفریحی پروگرام کا حصہ توہرگزنہیں ہو سکتی بلکہ میدانِ جنگ میں روس کے دانت کھٹے کرنے کے لیے یوکرینی کاروائیوں کو مضبوط اور موثر بنانے کے لیے رہنمائی اور تکنیکی معاونت فراہم کرنے کا حصہ ہوگی لڑائی ختم کرنے کی بجائے فروغ دینے کی ایسی کوششوں سے ہی دراصل عالمی امن خطرے میں ہے جو تیسری جنگ کے امکانات کوتقویت دیتا ہے۔
ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ سوویت یونین منہدم ہونے سے امریکادنیا کی واحد سپر طاقت کے طورپر امن کو لاحق خطرات کم کرنے کی کوشش کرتا اورجنگوں کا امکان بننے والے تنازعات کو حل کیا جاتا لیکن دستیاب موقع ضائع کر دیا گیا بلکہ عمداََ ایسی کوششیں کی گئیں کہ اقوامِ عالم آپس میں ٹکراجائیں پہلے سعودی عرب اور ایران کے درمیان موجود تاریخی رقابت کو ہوا دی گئی اب اسرائیل و ایران تصادم کی حوصلہ افزائی جاری ہے علاوہ ازیں امن کوششوں کی بجائے چین کے تائیوان پر حملے کا انتظارکیاجارہاہے یہ دنیا کے امن ،انصاف اور ترقی کے عمل کو سبوتاژکرنے کاایسا سوچا سمجھا منصوبہ ہے جو کسی بڑے ٹکرائو کا باعث بن سکتا ہے کشمیر تنازع بھی پاک بھارت جوہری ممالک کے درمیان ایک وسیع جنگ یا محدود ٹکرائو کے خدشات کی طرف اشارہ کرتاہے جنوبی اور شمالی کوریا میں سخت تنائو کسی سے پوشیدہ نہیں اب تو شمالی کوریا الزام عائد کرتا ہے کہ جوہری حملے کے منصوبے کو امریکہ نے حتمی شکل دیدی ہے یہ حالات دنیا کو خوف کے حوالے کرنے کے مترادف ہے یہ سنگین خطرات امن ،انصاف اور ترقی کے علاوہ انسانی بقا کے لیے بھی کسی طورسود مندنہیں نائن الیون واقعات کی آڑ میں افغانستان اور عراق کو تاراج کردیا گیا سچ یہ ہے کہ انھی حملوں سے ہر طاقتور ملک کو اپنی عدالت لگا کر اپنی مرضی کے مطابق انصاف کرنے کی حوصلہ افزائی ہوئی اوردنیا لڑائی کا اکھاڑہ بنتی جارہی ہے مہنگائی اور بدامنی بڑھتی دیکھ کر بھی طاقتوراقوام وسائل کا بڑا حصہ حقیقی مسائل پر صرف کرنے کی طرف متوجہ ہوئی ہیں بظاہر ایسے کوئی اشارے نہیں ملتے بلکہ آج بھی تمام امیر و غریب ریاستیں ہتھیاروں کی تیاری اور خرید کے لیے اضافی رقوم مختص کرنے کی روش پر گامزن ہیں ایسے اقدامات تیسری جنگ کے امکان کی راہ ہموار کرتے ہیں جب تک طاقتور اور کمزور ممالک کے مابین برابری کی بنیا پر تعلقات استوار نہیں ہوتے اوراپنی آزادی وخود مختاری کے معاملے پر طاقتور ممالک جس طرح حساس اور پُرعزم ہیں اسی طرح کمزور ممالک کی آزادی وخودمختاری کا احترام نہیں کرتے تب تک انصاف،ترقی اور امن کی منزل حاصل ہونا محال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔