میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت نے پاکستان کی پیٹھ میں ایک اور خنجر گھونپ دیا

بھارت نے پاکستان کی پیٹھ میں ایک اور خنجر گھونپ دیا

منتظم
جمعه, ۷ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ایچ اے نقوی
بھارتی حکومت نے پاکستان کی پیٹھ میں ایک اور چھرا گھونپ دیاہے اور پاکستانی حکام ابھی تک اس کی سنگینی محسوس نہیں کررہے ہیں، اطلاعات کے مطابق بھارت نے پاکستان کے شدید اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مغربی علاقے میںکشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ مکمل کرلیا ہے یہی نہیں بلکہ گزشتہ اگست میں ڈیم میں ابتدائی طورپر ڈیڈ لیول تک پانی بھی بھر دیاگیاہے۔ پاکستان نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر شدید تحفظات کااظہار کرتے ہوئے اس مسئلے کو ثالثی عدالت میں لے جانے کافیصلہ کیاتھا اور اس حوالے سے پانی وبجلی کی وفاقی وزارت کے ماہرین تیاریاں کررہے تھے ،اطلاعات کے مطابق بھارت انڈس واٹر کمشنر پی کے سکسینا نے پاکستان میں اپنے ہم منصب کو کشن گنگا ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی تکمیل کی باقاعدہ اطلاع دیدی ہے تاہم ابھی تک ا س ضمن میں حکومت پاکستان کی جانب سے ایسا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔پاکستان میں انڈس واٹر کے کمشنر مرزا آصف بیگ نے ابھی تک کشن گنگا کی تکمیل کی خبر عام ہی نہیں کی ہے،اور اب جبکہ صحافیوں کو اس کی اطلاع مل گئی ہے وہ اس حوالے سے صحافیوں کے تند وتیز سوالوں سے بچنے کے لیے نہ تو فون اٹھارہے ہیں اور نہ ہی ان کے میسیج کاجواب دینے کی زحمت کررہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق مرزا آصف بیگ نے کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تکمیل کے حوالے سے ابھی انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) پنجاب اریگیشن ڈیپارٹمنٹ اور واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا ہے۔جس کا اظہار اس حقیقت سے ہوتاہے کہ جب ارسا کے چیئرمین رائو ارشادعلی سے رابطہ قائم کیاگیا تو انھوں نے اس سے قطعی لاعلمی کااظہار کیا، رائو ارشاد کاکہناتھا کہ اصل واٹر ریگولیٹر کی حیثیت سے ارسا کو اس پراجیکٹ کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے ہر مرحلے سے آگاہ کیاجانا چاہئے تھا۔پنجاب اری گیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک سینئر افسر نے اس رپورٹ پر حیرت اور تعجب کااظہار کیا۔اس نے کہا کہ اصولاً مغربی دریائوں پر ہر طرح کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر سے آگاہ رکھاجانا چاہئے تھا۔وزارت پانی وبجلی کے ایک سابق افسر نے کہا کہ متعلقہ محکموں کو کشن گنگا میں پانی بھرے جانے کی تمام اسٹیک ہولڈرز کو اطلاع دی جانی چاہئے تھی۔ہمیں انتہائی سرگرمی اور مستعدی کے ساتھ بھارت سے اس مسئلے پر مذاکرات کرنے چاہئے تھے۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ بھارت کو کشن گنگا ہائیڈرو پراجیکٹ میں پانی بھرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس پر پاکستان کی جانب سے تحفظات اور اعتراضات کے بعد اس مسئلے کو حل کئے بغیر بھارت کو اس کی تعمیر مکمل نہیں کرنا چاہئے تھی۔واضح رہے کہ حکومت پاکستان اس مسئلے کو ثالثی عدالت میں لے جانے کی تیاری کررہی تھی۔لیکن اس حوالے یہ حقیقت نظر انداز کی جاتی رہی ہے کہ عالمی بینک اس حوالے سے طاس سندھ معاہدے کے دونوں فریقوں میں سے کسی کی بھی مدد کرنے سے قاصر ہے اور یہ محض خوش فہمی ہے کہ ورلڈ بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دو طرفہ معاہدہ ہے جس میں فریقین افہام و تفہیم سے معاملات طے کر سکتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کر پائیں تو ورلڈ بینک تنازع کو حل کرنے کے لئے ایک محدود کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر فریقین میں سے کوئی بھی معاہدے کو توڑنے کا فیصلہ کر لے تو ورلڈ بینک کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں ہے کہ وہ اسے روک سکے۔ اس طرح کی صورت حال میں فریقین عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔
اگرچہ سندھ طاس معاہدہ ورلڈ بینک کی کوششوں سے 1960میںطے پایا تھا لیکن ورلڈ بینک قانونی طور پر اس معاہدے کا ان معنوں میں ضامن نہیں ہے کہ اگر فریقین میں سے کوئی ایک معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو وہ اسے معاہدے کی پاسداری کے لئے مجبور نہیں کر سکتا۔ معاہدے میں کوئی شق ایسی نہیں ہے جس کے مطابق ورلڈ بینک معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکے۔ ورلڈ بینک خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف معاشی اقدامات اٹھانے کا بھی پابند نہیں ہے۔ البتہ ورلڈ بینک فریقین میں ثالثی کے فرائض سرانجام دے سکتا ہے لیکن اس کی بھی حدود ہیں۔ اول تو یہ کہ اگر فریقین میں تنازع کھڑا ہو جائے تو معاملہ غیر جانبدار ماہر (نیوٹرل ایکسپرٹ) کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے لئے ورلڈ بینک کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر معاملہ غیر جانبدار ماہر سے حل نہ ہو سکے یا فریقین میں سے کوئی ایک غیر جانبدار ماہر کو ناکافی سمجھے تو معاملہ ثالثی عدالت (کورٹ آف آربیٹریشن) میں لے جایا جا سکتا ہے۔ثالثی عدالت کی تشکیل کے لئے ورلڈ بینک ثالثوں کے چناوٗ کے لئے بہت معمولی کردار ادا کر سکتا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے لئے کئی سال مذاکرات ہوتے رہے اور آخر کار ورلڈبینک اور امریکہ کی کوششوں سے اس معاہدے پر 19ستمبر 1960کو بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان نے دستخط کئے۔ اس معاہدے سے پہلے آئے دن ہندوستان اور پاکستان میں پانی کا تنازع کھڑا ہو جاتا تھا۔ معاہدے کے مطابق تین مشرقی دریاوٗں، ستلج، بیاس اور راوی کا پانی ہندوستان کے تصرف میں رہے گا جبکہ چناب، جہلم اور سندھ کے پانی پر پاکستان کا حق ہوگا۔ ہندوستان چناب، جہلم اور سندھ پر پانی کے بہاوٗ پر بجلی پیدا کرنے کیلئے پروجیکٹس بنا سکتا ہے لیکن پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم نہیں بنا سکتا۔ اس کے علاوہ ہندوستان ان دریاوٗں پر بسنے والی آبادی کے استعمال کے لئے زیادہ سے زیادہ بیس فیصد پانی لے سکتا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ کافی پائیدار ثابت ہوا ہے کیونکہ پاک ہند جنگوں کے باوجود کسی فریق نے معاہدے کی تنسیخ نہیں کی۔ ہندوستان نے چناب اور جہلم پر بجلی پیدا کرنے کے لئے تنصیبات کھڑی کی ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ یہ تنصیبات پانی کے بہاوٗ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں اورہندوستان معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے صرف بجلی پیدا کرنے کے پروجیکٹس بنا رہا ہے۔ ان تنازعات کے سلسلے میں ہندوستان کا موقف ہے کہ یہ غیر جانبدار ماہر کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں جبکہ پاکستان اسے ثالثی عدالت میں لے کر جانا چاہتا ہے۔
ابھی تک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کئی ہائیڈرو پرو جیکٹوں پر تنازع کھڑا ہوا ہے۔ جب بگلیہار پر تنازع کھڑا ہوا تو اس کا فیصلہ غیر جانبدار ماہر نے ہندوستان کے حق میں کیا۔ اسی طرح پاکستان نے کشن گنگا کا معاملہ عالمی عدالت کے سامنے اٹھایا۔ عدالت نے عمومی طور پر ہندوستان کے حق میں فیصلہ دیا لیکن اس پر یہ شرط عائد کردی کہ وہ بیس کیوبک فٹ پانی دریائے نیلم میں چھوڑنے کا پابند ہوگا۔ اب پاکستان نے ہندوستان کے ریتلے ہائیڈرو پروجیکٹ پر سوال اٹھا دیا ہے۔ پاکستان نے لاکھوں ڈالر دے کر ایک قانونی فرم کی خدمات بھی حاصل کی ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان کے اٹارنی جنرل اور سیکریٹری پانی و بجلی ورلڈ بینک کو اس بات پر آمادہ کرنے کے لئے آئے تھے کہ وہ کشن گنگا اور ریتلے پر ثالثی عدالت بنانے میں پاکستان کی مدد کرے۔ ورلڈ بینک کے حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ہندوستان ثالثی عدالت بنانے پر تیار نہیں ہوتا تو بینک کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں ہے کہ وہ اسے ایسا کرنے پر مجبور کر سکے۔ہندوستان کا موقف ہے کہ اس دو طرفہ معاہدے میں معاملہ غیر جانبدار ماہر کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں میں اس قدر زہر آلود ماحول ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تنازعات افہام و تفہیم سے حل نہیں ہو پاتے۔ پاکستان میں سندھ طاس معاہدے سے متعلق ارباب اختیار یہ کہنے کا حوصلہ نہیں کرسکتے کہ ہندوستان نے بجلی پیدا کرنے کی تنصیبات معاہدے کے مطابق تعمیر کی ہیں۔ اس طرح کے خیالات کا اظہار پاکستان کے سندھ طاس کے کمشنر جماعت علی شاہ نے کیا تھا جس پر انہیں غدار وطن قرار دیا گیا تھا۔ اب پاکستان کے ارباب اقتدار خود فیصلے کرنے کی بجائے یہ معاملات عدالتوں میں لے جانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان پر تنقید نہ ہو۔ قانونی فرموں کی خدمات حاصل کرنے میں بھی مال پانی بنایا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب تک تنازع عدالت تک پہنچتا ہے تو ہندوستان اپنا پروجیکٹ مکمل کر چکا ہوتا ہے اورکشن گنگا ہائیڈوپاور پراجیکٹ کے بارے میں بھی بالکل یہی ہواہے ۔ ان حالات کے تناظر میںپاکستان کو حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب سند ھ طاس معاہدہ ہوا تھا تو امریکہ پاکستان کی زبردست پشت پناہی کرتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔امریکیوں نے پاک ہند معاملات میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے اور کسی غلط فہمی میں وسائل ضائع نہیں کرنے چاہئیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں