حضور آپ ﷺ آئے ،تو دل جگمگائے
شیئر کریں
قرآن حکیم فرقان حمید میں ارشاد ِ باری تعالی ہے کہ ’’اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ۔‘‘]سورۃ ابراہیم ،آیت ۵[۔امام المفسرین سید نا عبداللہ ابنِ عباس ؓ اس آیت مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کسی بھی نعمت کا نزول ہوا ہو۔ ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم سرورِ کائنات رحمتہ العالمین حضرت محمد ﷺ کی ولادت باسعادت اور معراج کے ایام ہیں۔اس لیے حضور ﷺ کی میلاد اور سیرت کا تذکرہ کرنا بھی اسی آیت کے حکم میں داخل ہے‘‘ ۔
حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ’’جب آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو آسمان سے ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مغرب سے مشرق تک ساری کائنات روشن ہوگئی‘‘۔یعنی کائنات کا ذرہ ذرہ آپ ﷺ کی آمد کا منتظر تھا۔اس لیے جب آپ ﷺ مولد ہوئے توآسمانِ قدرت نور کے جلووں سے لبریز ہوگیا،پھول نکہت اورکلیاں خوشبووں سے ایسی مہکیں کہ پتہ پتہ مخمور ہوکر سربسجو د ہوگیا،مندروں میں بتوں نے اپنے کفر سے تائب ہوکر اپنے اپنے سرایمان کے آگے سرنگوں کرلیے۔ لات ومنات ،ھبل و عزات کی عزت و توقیر پامال ہوگئی ۔گمراہی ہدایت میں بدل گئی ،ظلم کو اپنی موت اپنے آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگی ۔ فرشتے خوشی سے جھومتے ہوئے خوشبوؤں سے معطر آسمانوں سے جوک در جوک زمین دنیا پر اُترنے لگے۔ ایک بیدار انقلاب ہرسمت سے طلوع ہوتا نظر آنے لگااور سرزمینِ حجاز جلوہ حقیقت سے سرشارہوگئی ۔نور کے تڑکے’’ نور علی نور ‘‘کی نورانی آوازوں کے ساتھ کائنات گنگنانے لگی ۔پھولوں نے اپنی قبائیں رنگیں کرلیں ،کلیوں نے آنکھیں وا کیں، دریا بہنے لگے ،ہوائیں چلنے لگیں ،آتش کدوں کی آگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے سرد ہوگئی ۔
آپ ﷺ کی آمد کی بدولت یتیموں کو والی ،بے سہاروں کو سہارا ملا ،جہنم کے گرداب میں گھری ہوئی انسانیت کو واپسی کا کنارا ملا،تو پھرایسا کون سا انسان ہے جو آپ ﷺ کی آمد کے دن خوشی نہ منائے ۔ آپ ﷺ کی آمد کے دن خوشی منا نا انسانی فطرت کا تقاضا ئے عین ہے ۔جب ہی تو انسان ہمیشہ سے اس دن میں تمام ایام سے بڑھ کر خوشی مناتا آیا ہے۔ ممتاز محدث علامہ ابن عبدالرحمن ابن جوزی اپنی کتاب ’’المولد لنبی ،صفحہ 58 پرسرزمینِ عرب عید میلادالنبی ﷺ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ہمیشہ سے مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ،مصر ،شام ،یمن غرض شرق و غرب تک تمام بلادِ عرب کے باشندے عید میلاالنبی ﷺ کی محافل منعقد کرتے آئے ہیں ۔اہلِ عرب جب ماہِ ربیع الاول کا چاند دیکھتے ہیں تو ان کی خوشی کی انتہانہیں رہتی ۔چنانچہ ذکرِ میلاد پڑھنے اور سننے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور بے پناہ اجرو کامیابی حاصل کرتے ہیں ‘‘۔
آپ ﷺکے ولادت باسعادت کے دن کو ریاستی سطح پر عظیم الشان طریقے سے منانے کا آغاز سب سے پہلے نورالدین زنگی کے دورِ حکومت میں ملک شام سے ہوا تھا جس کو پھر بعد میں سلطنتِ عثمانیہ نے عظیم الشان دوام بخشا اور اُس کے بعد سے لے کر آج تک کئی اسلامی ممالک کی جانب سے اس دن ریاستی سطح پر عیدمیلادالنبی ﷺ منانے کا سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔ہزار شکر کہ ہمارا وطن عزیز بھی عالمِ اسلام کے اُن ممالک کی صف میں شامل ہے جہاں سرکاری و ریاستی سطح پر جشن ِعید میلادالنبی ﷺ منانے کا اہتمام کیا جاتاہے۔مذہبی منافرتوں اور دیگر کج بحثی سے قطع نظر ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ مسلمان کے ایمان کی تکمیل کی شرط اولین سرکارِ دوعالم ﷺ سے محبت ہے ۔جیسا کہ حضر ت عبد اللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ’’ ایک دفعہ ہم بنی کریم ﷺ کے ساتھ تھے،اور آپ ﷺنے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کاہاتھ پکڑا ہوا تھا،پس حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے کہا:یا رسول اللہ! مجھے آپ،اپنی جان کے علاوہ، ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’جب تک میں تیری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ایمان مکمل نہ ہو گا‘‘حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا:پس اللہ کی قسم!اب آپ ﷺ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عمرؓ! اب تم کامل مومن ہو۔‘‘]صحیح بخاری[
اس حدیث مبارکہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اگر کوئی عاشقِ رسول اپنی محبت کے اظہار کے لیے اپنے گھر کو سجاتاہے ،اپنے محلے کو سجاتاہے یا اپنے شہر کو سجانے میں معاونت فراہم کرتا ہے اور اپنے حضورحضرت محمد ﷺ کی آمد کی خوشی میں مٹھائی یا کوئی اور شیرنی لوگوں میںتقسیم کرتا ہے تو اس پر تنقید کے بجائے اس عمل میں اس کی تقلید کرنی چاہئے اور اگر اس عاشق ِ رسول ﷺ کی طرف سے اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے میں کوئی کوتاہی اورکمزوری نظر آئے تو یہ دُعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے جشن میلادالنبی ﷺ جیسی بابرکت خوشی منانے کے ساتھ ساتھ اپنے حبیب حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے والا بھی بنائے ۔بے شک ہمارے نبی ﷺ کی محبت ہمارے لیے باعث نجات ہے۔شاید اسی طرف علامہ اقبال ؒ نے اشارہ کرتے ہوئے فرما یا تھا کہ’’ یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا ۔۔۔روح محمد اس کے بدن سے نکال دو۔۔۔فکر عرب کو دے کر فرنگی خیالات۔۔۔ اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو‘‘۔
آج اگر ہم عالمی حالات کی طرف نظر کریں تو تمام استعماری طاقتیں اور بولہبی قوتیں مختلف حیلوں بہانوں اور ہمارے آپس کے اختلافات کا فائدہ اُٹھا کر ہر طرف سے اور ہرطریقے سے ہم پر حملہ آور ہیں ۔اس کے مقابلے میں بدقسمتی سے ہمارا کردار آج بھی یہ ہی ہے کہ ہم ترازو اُٹھاکر نبی ﷺ کی شان تولنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ان دگرگوں حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تمام مسلمانِ ملت اپنے تمام فروعی تنازعات و اختلافات بھلا کر عید میلادالنبی ﷺ اس شان اور وقار سے منائیں کہ تمام بولہبی قوتوں کو اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ مسلمان عظمتِ مصطفی ﷺ کا پرچم اُٹھائے ، حضو ر ﷺ کی ولادت باسعادت پر توحید کی سربلندی کے لیے یک جان ہو چکے ہیں۔
یہ دو جہان سے آگے کی ایک منزل ہے
عطائے عشق محمدﷺ،جہان تیسرا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔