نیشنل بینک کے جاری قرضے بنگلہ دیش میں ڈوبنے کا خطرہ
شیئر کریں
نیشنل بینک آف پاکستان کا بنگلادیش میں ایک اور اسکینڈل سامنے آگیا، عملہ قرض داروں سے 18 ارب 90 کروڑ روپے واپس لینے میں ناکام ہوگیا، ذمہ داران کا تعین بھی نہ ہو سکا۔ جرأت کو حاصل دستاویزات کے مطابق نیشنل بینک نے بنگلادیش میں اپنی برانچوں کے ذریعے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران 25 ارب 84 کروڑ 20 لاکھ روپے مختلف گروپوں اورقرض داروں کے لیے قرضہ منظور کیا، قرض منظوری کے بعد رقوم گروپوں یا کسٹمرزکو جاری کی گئی، این بی پی انتظامیہ نے بھاری قرض جاری کرنے کے بعدسستی ظاہر کی اور قرض داروں سے صرف 6 ارب 87 کروڑ 50 لاکھ روپے وصولی کی ،بینک انتظامیہ 6 ارب روپے کی وصولی میں بھی تاخیر کی مرتکب ہوئی، اعلیٰ حکام نے رقم کی واپسی کے حوالے سے انتظامیہ کو بار بار تنبیہ کی ،مگر قومی ادارے کی انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، نتیجے میں این بی پی نے نقصان برداشت کیا، انتظامیہ نے بھاری رقوم کی وصولی میں ناکامی کے باوجود اس معاملے پر تحقیقات کی ضرورت محسوس کی اور نہ ذمہ داران کی خلاف کارروائی کی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بینک میں قرضوں کی وصولی نہ ہونے سے کیش فلو پر تشویش ناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور وقت گزرنے سے رقم کی وصولی کے امکانات کم ہوسکتے ہیں ، یہ خطرہ موجود ہے کہ 18 ارب 90 کروڑ روپے کی رقم بیڈ ڈیبٹس (ناقابل وصول قرضے) میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ این بی پی کی برانچز کے ذریعے گزشتہ برسوں کے دوران بنگلادیش میں 25 ارب 84 کروڑ 20 لاکھ روپے روپے قرضہ مختلف گروپوں کو دیا گیا، نیشنل بینک نے جن گروپوں کو قرضہ جاری کیا انہوں نے بینک کے پاس مطلوبہ ضمانت جمع نہیں کروائی یا جمع کروائے گئے اثاثے ناکافی اور حقائق کے برخلاف تھے لیکن اس کے باوجود نیشنل بینک انتظامیہ نے بنگلادیش میں برانچوں کے ذریعے قرض کی بھاری رقم جاری کردی۔