سرکاری سطح پرپاکستان نے ابھی تک افغان حکومت کوتسلیم نہیں کیا بلاول بھٹو
شیئر کریں
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک میں تباہی مچانے والے سیلاب کے حوالے سے پاکستان کو بھارت کی طرف سے کوئی مدد موصول نہیں ہوئی اور نہ اس کی توقع ہے۔نیویارک میں فرانس 24 نامی میڈیا ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے جب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے پوچھا گیا کہ کیا بھارت کی طرف سے پاکستان کو سیلابی تباہی کے سلسلے میں کوئی امداد موصول ہوئی یا پاکستان نے کبھی بھارت کو مدد کرنے کے لیے کہا، وزیر خارجہ نے دونوں سوالات کے جواب منفی دیے۔ پاکستان نے ابھی تک سرکاری سطح پر افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا،بھارت کے ساتھ موجودہ تعلقات پر بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ہمارے طویل اور پیچیدہ تعلقات کی تاریخ ہے، بدقسمتی سے آج کا بھارت وہ بھارت نہیں رہا، اور نہ ہی وہ سیکیولر بھارت رہا ہے جس کا بانیان بھارت نے تمام شہریوں کے لیے ایک برابر ملک ہونے کا وعدہ کیا تھا۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج کا بھارت تیزی سے ہندو بالادست بننے کی طرف گامزن ہے جو نہ صرف اندرونی طور پر بلکہ ملک سے باہر مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی مسلم اور عیسائی اقلیتوں کے لیے تنگ بنتا جارہا ہے۔بھارت کی طرف سے 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے لیے بھارت کے ساتھ تعلقات ناقابل برداشت ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کو نظر انداز کرنا، متنازع علاقے کی سرحدیں تبدیل کرنا اور جغرافیائی تبدیلی کی کوششیں کرنا بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بہت محدود بناتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بھارت کی نسل پرست، فاشسٹ اور اسلاموفوبیا پالیسی ہے جس پر نہ صرف کشمیر میں بلکہ پورے بھارت میں ردعمل سامنے آیا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی خود کو ستائی ہوئی اور غیر محفوظ محسوس کرتی ہے، بھارتی حکومت اپنے ہی مسلمان شہریوں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہی ہے اور اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ پاکستانی اور کشمیری مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی نوجوان نسل دونوں پڑوسیوں کو امن کے ساتھ رہتے دیکھنا چاہتی ہیں۔افغانستان اور وہاں کی حکومت کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر مسلسل پابندی پر بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے ابھی تک سرکاری سطح پر افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ قوم کو قانونی حیثیت حاصل کرنے اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروانے کے لیے عالمی براداری سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل افغانستان کے مفاد میں ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کچھ حد تک خواتین کو تعلیم کی اجازت دی گئی ہے مگر سیکنڈری تعلیم ابھی تک بند ہے۔