عمران خان کی چشم پوشی اور مکافات عمل
شیئر کریں
مکافاتیعمل قدرت کا متعین اور طے شدہ ہے کہ جب انسان جذبات کے دریا میں بہہ جاتا ہے تو پھر تیرنا یا ڈوبنا اُس کا مقدر بن جاتا ہے۔ اور یہ وہ عمل ہوتا ہے جس کو دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے اور پھر کوئی اس سے سبق حاصل کرکے اپنی اصلاح کرتا ہے اور عبرت پکڑتا ہے، یہ قدرت کا کمال شفقت ہے کہ وہ پھر بھی انسان کو بار بار موقعہ دیتی ہے کہ انسان خود بھی بیداری اور ہوشمندی کا ثبوت دے کر اپنی اصلاح کرے۔ میری آج کی تحریری نشست کے یہ چند بنیادی جملے ہیں شائد کہ اُتر جائے کسی کے دل میں میری بات، اور مجھے تو ہے حکم اذاں کے مترادف ہم بھی صداقت اور سچائی کی دستک ہر دہلیز پر دیتے ہیں۔
ملک کی سیاستِ صحرائی اُس مسافر کی تصویر بن چکی تھی جس کو منزل کا نشان ملنا تو درکنار راستہ بھی نہیں ملتا اور وہ بھٹکا ہوا مسافر بن چکا ہوتا ہے۔ اس سیاسی میدان میں عمران خان نے پورے اعتماد اور عزم کے ساتھ اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا، پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی آواز ملک کے کونے کونے میں سنائی دی اور قوم عمران خان کے پیچھے چل پڑی،بلکہ اسی طرح دوڑ پڑی جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے روٹی، کپڑا اور مکان کی آواز کو اپنے مقدر کا چراغ سمجھ کر چل پڑی تھی۔ قوم کو کیا ملا اور کیا نہیں یہ وقت نے خود ثابت کیا۔ آج ہم اس کا جائزہ اور تجزیہ نہیں کریں گے مگر اتنا قلم بند کرنا ہم اپنی منصبی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ سازش اور عداوت نے پوری طاقت سے قوم کی امیدوں کے چراغ بجھادیئے، اور سیاست کی تمام کوششیں ریت کی دیوار ثابت ہوتی رہیں۔ عمران خان کا آغاز جس جذبے اور انداز میں ہوا تھا، قوم کے چراغ روشن تو ہوگئے مگر خان صاحب کی سیاست کا طرہ امتیاز کمزور ہونا شروع ہوگیا۔ ہم آج اپنی تحریر صرف اور صرف عمران خان صاحب تک محدود رکھیں گے چونکہ تحریک انصاف کی سیاسی اور نظریاتی بنیادوں میں ہماری محنت اور مشقت کا خون موجود تھا ہماری جدوجہد اور قربانیوں نے تحریک انصاف کی وہ آبیاری کی کہ تحریک انصاف کا پودا درخت بن گیا۔ لیکن یہ عجیب اتفاق ہوا کہ عمران کے سیاسی قافلے میں ایسے لوگ جمع ہوگئے جنہوں نے ابھی تک سیاسی قاعدہ بھی نہیں پڑھا اور نہ ہی سیاسی تجربہ حاصل کیا تھا۔ ہم نے پھر بھی اپنا فرض قرض سمجھ کر ادا کیا اور پارٹی کے وقار کو بلند رکھنے کیلئے بھرپور کوشش ہمیشہ جاری رکھی لیکن اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہماری یہ تمام کاوشیں رائیگاں کرنے کی ایسی سازشیں شروع ہوگئیں کہ عمران خان انصاف کا تقاضہ اپنی نظریاتی پارٹی میں بھی پورا نہ کرسکے اور وہ دائیں بائیں اور آگے پیچھے مفاد پرستوں کے جنگل میں آگئے۔ وہ ان لوگوں کو بھی کان پکڑ کر نکالنے لگے جنہوں نے پارٹی کی بقاءکی جنگ میں اپنا اہم کردار ادا کیا تھا۔ آج پارٹی کو خیر آباد کہنے کا سلسلہ جاری ہے ،کون نہیں جانتا کہ محمد زبیر خان جیسے کہنہ مشق سیاسی کارکن کو بھی مایوسی کے سمندر میں پھینک دیا اورانہوں نے سیاسی دربدری سے بچنے کیلیے پیپلز پارٹی کی بساط پر ڈیرہ جمالیا۔ پھر وجیہ الدین جیسے اعلیٰ سیاسی بصیرت کے لوگ پارٹی سے مایوس اور عمران خان سے دل برداشتہ ہوکر کنج قفس میں چلے گئے اور یہ بھی کہ شاہنواز احمد صدیق جیسے کارکن جنہوں نے شہر قائد میں بھی تحریک انصاف کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت کرنے کی جدوجہد کی، وہ بھی پارٹی کو خدا حافظ کہہ گئے اور اب یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی کہ اکمل لغاری بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ مگر تحریک انصاف کے سیاسی دکانداروں اور سوداگروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگیں۔ خان صاحب کی چشم پوشی شروع ہوئی تو پھر ہم نے بھی خاموشی پکڑلی ، ہم نے دستک کی بہت صدائیں سنیں اور دعوتوں کے کارڈ ملے مگر ہم نے صبر کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا لیکن وقت کی رفتار اور گفتار میں فیصلے بدلے بھی جاتے ہیں ۔اس کے باوجود ہم خان صاحب کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ پارٹی اور تحریک اس وقت تک قائم و دائم نہیں رہ سکتی جب تک کارکنوں کی قربانیوں کو زندہ نہیں رکھا جاتا۔
٭٭