برِکس کی اہمیت
شیئر کریں
جُوںجُوں امریکادنیا پر اپنی اجارہ داری اور فوقیت قائم رکھنے کی خاطر ہاتھ پاؤں مار رہا ہے ‘ رُوس اور چین دنیا پرانکل سام کی جکڑ بندی کو توڑنے کے لیے مختلف اقدامات کررہے ہیں۔ پانچ ملکی بین الاقوامی تنظیم برِکس کے حالیہ اجلاس کو اسی تناظر میں دیکھاجاسکتا ہے۔گزشتہ ماہ تئیس اور چوبیس جون کو چین کی میزبانی میں برکس کا چودھواں سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔اس کا اعلامیہ بہت وقعت کا حامل ہے۔ اس اعتبار سے کہ برکس تنظیم نے امریکہ کی سربراہی میں قائم کرنے والے عالمی نظام المعروف ورلڈ آرڈر کا متبادل نظام بنانے کی طرف پیش قدمی کی ہے۔رُوس اور چین کی کوششوں سے وجود میں آنے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اوربرِکس دو ایسے بین الاقوامی گروہ ہیں جو عالمی سیاست میں امریکاکے زیر اثر کام کرنے والے اداروںکے مدّمقابل اور حریف کا مقام رکھتے ہیں۔
برِکس کی بنیاد جون سنہ دو ہزار آٹھ میں رُوس میں رکھی گئی تھی۔ اس گروپ میں فی الحال پانچ ممالک شامل ہیں۔ چین۔ رُوس۔ برازِیل۔ انڈیا اور جنوبی افریقہ۔ امریکا اور یورپ کا کوئی ملک بجز رُوس اس گروپ میں شامل نہیں ہے۔رُوس کومغربی سامراج اپنا حصہ نہیں سمجھتا۔ مشرقی ملک اور اپنا حریف تصّور کرتا ہے۔ یہ پانچوں دنیا میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتیں ہیں۔ دنیا کی چالیس فیصد آبادی ان پانچ ملکوں میں رہتی ہے۔ عالمی معیشت میں ان ملکوںکا مجموعی طور پر ایک چوتھائی حصّہ ہے۔ ان کی مجموعی داخلی پیداوار (دولت) کا تخمینہ تقریبا ًستائیس ارب ڈالر ہے۔ آئی ایم ایف کا تخمینہ ہے کہ اگلے سات‘ آٹھ برسوں میں بین الاقوامی تجارت کا نصف حصّہ برِکس ممالک کا ہوگا۔برِکس تنظیم کے چار بڑے مقاصد ہیں۔ امن۔ سلامتی(سیکیورٹی)۔ معاشی ترقی اور باہمی تعاون کو فروغ دینا۔ گزشتہ چودہ برسوں میں اس گروپ کا زیادہ زوررکن ممالک کے درمیان معاشی تعاو ن بڑھانے پر رہا۔سنہ دو ہزار چودہ میں برِکس نے اپنا ایک ترقیاتی ادارہ قائم کیا۔اسے نیو ڈویلپمینٹ بینک (این ڈی پی)کہتے ہیں۔ یہ ورلڈ بینک کی طرز پر کام کرتا ہے۔ البتہ اسکا حجم نسبتاً چھوٹا ہے۔برِکس بینک رکن ممالک کو ترقیاتی کاموں خاص طور سے انفراسٹرکچر کے منصوبوں کی غرض سے فنڈز فراہم کرتا ہے۔ ایسے منصوبوں کوترجیح دی جاتی ہے جن سے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں مدد ملے۔اس بینک کا سرمایہ ایک سو ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے زیر اثر ورلڈ بینک کا سرمایہ اس سے پانچ گنا زیادہ یعنی پانچ سو ارب ڈالر ہے۔ اس بینک کے قیام سے برِکس ممالک کا اِنحصار عالمی بینک پر کم ہوگیا ہے۔ اگلے پانچ برسوں میں نیو ڈویلپمینٹ بینک رکن ممالک کو تیس ارب ڈالر مالیت کے منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کرے گا۔ا س میں چالیس فیصد رقوم ماحول دوست پراجیکٹس کے لیے ہوں گی۔
بیجنگ اور ماسکو نے برِکس تنظیم بنا کردنیا کے معاشی اور فنانشل نظام پر سے امریکہ کی اجارہ داری کو کمزور کیا ہے۔ اب ترقی پذیر ممالک ترقیاتی منصوبوں کے لیے امریکہ کے ساتھ ساتھ برِکس کی طرف بھی نظریں لگائے ہوئے ہیں۔ دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک اس گروپ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ جون میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں بارہ ممالک نے مبصر کے طور پر شرکت کی۔ ان میں ایران۔ ارجنٹائن۔ الجیریا۔ کمبوڈیا۔ مصر۔ ایتھوپیا۔ فجی۔ انڈونیشیا۔ ملائشیا۔ تھائی لینڈ۔ ازبکستان اورقازقستان شامل تھے۔ایران اور لاطینی امریکہ کے بڑے ملک ارجنٹائن نے برِکس تنظیم کا رُکن بننے کے لیے باقاعدہ درخواست جمع کروادی۔ سربراہی اجلاس میں اس معاملہ پر باقاعدہ بات چیت کی گئی۔گروپ کے تمام ممالک نے اُصولی طور پر ان کی شمولیت پر اتفاق کیا ۔ یہ درخواستیں پراسیس کے مراحل میں ہیں۔ تنظیم کو توسیع دینے کی خاطر اس کے اصول و ضوابط پر کام کیا جارہا ہے۔
ایران اور ارجنٹائن کے برِکس میں شامل ہونے سے اس تنظیم کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی۔ معاشی اعتبار سے اور تزویراتی لحاظ سے بھی۔یہ تنظیم اب برِکس پلَس بننے والی ہے۔ ارجنٹائن جنوبی امریکہ کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ جنوبی امریکاکے ملک ایک صدی سے امریکی سامراج کے زیراثر ہیں۔لیکن اب چین اس براعظم پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ ان ملکوں کوچینی سرمایہ کی کشش اس کی طرف کھینچ رہی ہے۔ارجنٹائن کے امریکہ سے بھی اچھے تعلقات ہیں لیکن ان دنوں وہاں پر بائیں بازوسے تعلق رکھنے والے صدر البرٹوفرنانڈس ملک کی خارجہ پالیسی کو متوازن بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایران کا برِکس میں شامل ہونا فطری بات ہے کیونکہ امریکہ نے اس کا ناطقہ بند کیا ہُوا ہے۔ ایران فیٹف کی سیاہ فہرست میںشامل ہے۔ اُس پر تجارتی اور بنکنگ کی پابندیاں عائد ہیں۔ ایران میں دنیا میں قدرتی گیس کے دوسرے بڑے اور تیل کے چوتھے بڑے ذخائر ہیں۔ سعودی عرب‘ مصر اور ترکی نے بھی برِکس میں شامل ہونے کے لیے دل چسپی کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب کے امریکہ سے تعلقات کی نوعیت بدلتی جارہی ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان صرف امریکہ پر انحصار کرنے کی بجائے ساتھ ہی ساتھ رُوس اور چین کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے رہے ہیں۔چین کے صدر شی جن پنگ نے حالیہ بیان میں کہاکہ برِکس کوئی چھوٹا سا بندخاندان نہیں ۔ ہم اس خاندان کووسیع کرنا چاہتے ہیں ۔ زیادہ ممالک کو جلد اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ انڈیا برِکس کو توسیع دینے میں پُرجوش نہیں لیکن کھل کر مخالفت نہیں کررہا۔ دلّی کے حکمران ایک طرف ترقی پذیر ملکوں کی مخالفت نہیں کرنا چاہتے ۔ دوسری طرف‘ ان کے امریکاسے اچھے تعلقات ہیں انہیں بھی خراب نہیں کرنا چاہتے۔
چین اور روس برِکس پلَس کو امریکہ کے اثر سے آزاد ممالک کی تنظیم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایسا بین الاقوامی ادارہ جو امریکہ کے بنائے ہوئے اداروں کا متبادل پلیٹ فارم ہے۔ روس نے حالیہ اجلاس میں تجویر پیش کی کہ گروپ کے ممالک اپنی الگ ریزرو کرنسی بنائیں جو ملکوں کے درمیان تجارت کے لیے استعمال ہوسکے۔ اور امریکی ڈالر کی جگہ لے کیونکہ امریکہ ڈالر کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ اس وقت دنیا میںملکوں کے درمیان لین دین امریکی ڈالر میں ہوتا ہے۔ امریکاکے بینکنگ نظام اور سوفٹ سسٹم کے ذریعے رقوم کے تبادلے ہوتے ہیں۔ واشنگٹن جب چاہتا ہے جس ملک پر پابندیاں لگا کر اسے یہ نظام استعمال کرنے سے روک دیتا ہے۔ جیسے ایران‘ شمالی کوریا اور رُوس پر پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ اگر برِکس تنظیم اپنی متبادل عالمی کرنسی اور رقوم کے تبادلہ کا بینکنگ نظام بنالیتی ہے تو بہت سے ممالک امریکی شکنجہ سے آزاد ہوجائیں گے۔ عالمی مالیاتی نظام میں امریکا کی اہمیت کم ہوجائے گی۔تاہم یہ نظام بنا کر اسے رُو بہ عمل لانے میں چند سال لگیں گے۔ چین کے صدر نے برِکس ممالک کے درمیان دفاعی اور سلامتی امور پر تعاون کی تجویز پیش کی ہے۔بیجنگ چاہتا ہے کہ دنیا میں عالمی سلامتی کا نیا نظام قائم کیا جائے جس کے تحت کوئی ملک دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ چینی صدر نے اسے’ گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو ‘کا نام دیا ہے۔یہ نظام امریکہ کے تحت چلنے والے عالمی آرڈریاکسی حد تک اقوام متحدہ کا متبادل ہوگا ۔متبادل عالمی نظام قائم کرنے کی یہ کوشش ابتدائی مراحل میں ہے اور اسے پختہ ہونے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔ تاہم ایک زوردار ابتدا ء ہوچکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔