مودی اسرائیل کی چال چل رہے ہیں؟
شیئر کریں
بھارت میں مسلسل ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں جو اسرائیل کی پیروی قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اسرائیل کی شاگردی یا اس کے ساتھ حکمت عملی کے اشتراک کے ہم معنی ہیں۔ یا پھر اسرائیل کی سرپرستوں نے بھارت کی بھی اسی انداز کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔اس لیے بھارت نے اپنے ہاں اقلیتوں اور بھارت کے زیرانتظام ریاست جموں وکشمیر کے لیے وہی ہتھکنڈے کھلے عام استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں جو اسرائیل اپنے ہاں فلسطینی عوام کے خلاف مسلسل استعمال کرتا آیا ہے اور آج بھی کر رہا ہے۔ بھارت میں اس کی تازہ مثالیں توہین رسالت پر مبنی واقعات کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے گھروں کی ’سیکیولر‘ بھارت میں شروع کی گئی مسماری مہم ہے۔
جواہر لال یونیورسٹی کی ا سٹوڈنٹ لیڈر آفرین فاطمہ کے گھر کی مسماری اس کی اہم مثال ہے کہ آفرین فاطمہ نے اس سے پہلے بھارت میں شہریت کے نئے قانون کے خلاف دیے گئے دھرنوں سے جگہ جگہ خطاب کیا تھا۔ وہ بھی بھارت سرکار کے لیے قابل قبول نہ تھا۔مقبوضہ فلسطین کے العراقیب گاؤں کی 203 مرتبہ مسماری اور شیخ جراح کالونی میں بھی ایسی ہی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں کے اصل باسیوں کو نکال کر اسرائیل زمینی حقائق اپنے حق میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل بندوق کی نوک پر فلسطینیوں کی زمین ہتھیا کر بھی دنیا کے سامنے ایک غاصب کے طور پر ہی جانا جائے گا۔اس ماحول میں جب بھارت نے اپنی شہری انتظامیہ کو احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے گھر مسمار کرنے کا ٹاسک سونپا ہے تو بھارتی حکمت عملی کے حامی ایک نوجوان انکش جیسوال نے اپنی شادی والے دن بطور دلہا بلڈوزر پر سوار ہو کر سسرالی گاؤں پہنچنا پسند کیا۔
گویا بلڈوزر آنے والے دنوں میں بھارتی سرکار ہی نہیں ہندوتوا کے لیے بھی اہم ہتھیار ہو گا اور شوق ہی شوق میں یا مذاق ہی مذاق میں نوجوان بھاری بلڈوزر چلانا سیکھنا شروع کر سکتے ہیں تاکہ بھارت میں شروع ہونے والی مسماری مہم میں حصہ ڈالنے کے لیے مہارت کے حامل ہو سکیں۔ ایک دلہے کا یہ شوقیہ انداز کل بھارت میں اقلیتوں کے لیے سنگین مذاق سے آگے نکل کر المیے کا باعث بن سکتا ہے۔بھارت اپنے ہاں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے اس پر امریکا کی حالیہ رپورٹ تازہ ترین حوالہ ہے۔ لیکن اس وقت زیر بحث موضوع بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بھارتی ظلم وجبر کی صورت حال نہیں ہے۔ زیر بحث موضوع جی 20 کا سالانہ سیشن 2023 اقوام متحدہ کی طرف سے متنازع قرار دی گئی ریاست جموں وکشمیر میں بلایا جانا ہے۔
بین الاقوامی قوانین کے تحت بھارت کو ایک متنازع علاقے میں یہ اجلاس بلانے کا حق نہیں ہے، بلکہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور سب سے بڑے عالمی ادارے کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔اس میں اب کوئی شک نہیں رہا ہے کہ بھارت کی مودی سرکار خاص انداز سے ملک کو ایک مختلف شناخت دینے کی کوشش میں ہے اس کے لیے اس کی چنداں اہمیت نہیں ہے کہ اس کا فیصلہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے یا ان کے برعکس ہے۔اب وہ اپنی اس دیدہ دلیری میں اقوام عالم کو بھی ایک اور انداز سے شریک کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی مودی سرکار جس کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ ہمیشہ عالمی ضمیر کے لیے تشویش ناک رہا ہے۔ لیکن اس سب کچھ کی پروا کیے بغیر مودی کا بھارت آگے ہی آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
گروپ 20 کے ممالک کو متنازع علاقے جموں وکشمیر میں بلا کر درحقیقت اپنے ان اقدامات پر مہر تصدیق ثبت کرانا چاہتا ہے جو اس نے پانچ اگست 2019 کو ریاست جموں وکشمیر کی بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔اس کے باوجود کہ بھارت کے اس سلسلے میں اہم بات یہ کہ اس بھارتی اقدام کو اہل کشمیر میں سے ان سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات نے بھی آج تک تسلیم نہیں کیا ہے جو بھارت نواز سمجھی جاتی ہیں۔ یا جن کا وزن ہمیشہ بھارت کے حق میں جاتا رہا ہے۔ ان میں فاروق عبداللہ کا خاندان اور سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں۔یہ سب لوگ بھی بھارت کے اس اقدام کو مسترد کر کے نظر بندی بھگت چکے ہیں۔ اہل کشمیر کے حقوق کے اس قدر خلاف اقدام تھا کہ کشمیریوں کے ممکنہ شدید تر رد عمل کو روکنے کے لیے بھارت نے پیشگی جابرانہ سکیورٹی انتظامات کیے، کشمیر میں کرفیو کا سماں رہا۔ دنیا کی تاریخ کا بد ترین مواصلاتی لاک ڈاون بھی اسی سبب بھارت نے کشمیر پر کئی ماہ تک مسلط کیے رکھا تھا، جس کے نتیجے میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر ہر قسم کی سرگرمیاں بلاک، موبائل فون سروس معطل اور میڈیا پر سنسر لگا دیا گیا تھا۔
اس وقت عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں نے اس بھارتی اقدام کی مذمت کی تھی حتی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اس واقعے کی کافی گونج رہی۔لیکن بھارت جو ایک جانب انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کی پروا نہ کرنے کی حکمت عملی پر مسلسل کاربند ہے اور دوسرا یہ سمجھتا ہے کہ انسانی برادری بھی چیزوں کو تو جلدی بھول جاتی ہے اور جو عالمی طاقتیں کوئی نوٹس لے سکتی ہیں انہوں نے اپنی آنکھوں پر اپنے مفادات کی عینکیں چڑھا رکھی ہیں۔ لہذا کوئی خطرے والی بات نہیں ہے۔اس سلسلے میں بھارت کی مودی سرکار کے لیے یہ معاملہ بھی باعث تقویت ہے کہ امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ نے 2018 میں جس طرح بین الاقوامی اصولوں، قوانین اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کو خاطر می ںہ لاتے ہوئے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اقدام کر کے اسرائیلی سرپرستی کی بد ترین مثال قائم کی تھی، آج کی دنیا میں جب امریکا کو بھارت کی اشد ضرورت ہے وہ بھارت کے ان ظالمانہ اور غیر قانونی وغیر اخلاقی اقدامات کی تائید پر مائل ہو جائے گا۔ لیکن یہ بات شاید بھارت نظر انداز کر رہا ہے کہ گروپ 20 میں امریکا کے علاوہ بھی بہت اہم اور مؤثر ممالک شامل ہیں۔ ان میں انسانی حقوق کے ایجنڈے کے ساتھ کمٹمنٹ رکھنے کی کوشش کرنے والی یورپی یونین بھی شامل ہے۔ کہ جس نے امریکی سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیے جانے کی پیروی نہیں کی۔
دھونس اور لالچ کے ہاتھوں مجبور ہو کر نصف درجن سے بھی کم ملکوں کے علاوہ دوسری ساری دنیا نے بھی اس سابقہ ٹرمپ انتظامیہ کی حرکت کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ یورپی یونین کے ایک ہم ملک ناروے نے تو محض چند روز قبل یورپی یونین اور یورپی عدالت کے فیصلے کے مطابق مقبوضہ فلسطینی وعرب علاقوں کی مصنوعات پر اسرائیلی ساختہ کی مہر کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ اس پر اسرائیلی موقف تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ناروے کے اس دو ٹوک فیصلے پر اسرائیلی بے چینی دیدنی تھی۔اب بھارت بھی اسی اسرائیلی انداز میں عالمی طاقتوں کی مہر سے کشمیر کو ہڑپ کرنے کی سفارتی کوششوں میں ہے۔ لیکن اسے اندازہ ہونا چاہیے کہ گروپ 20 میں چین اور روس بھی شامل ہیں۔ مغربی ممالک بھی شامل ہیں۔ تین مسلم ممالک انڈونیشیا، ترکیہ اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔جبکہ پاکستان جس نے ایف اے ٹی ایف کی تمام تر شرائط مان کر امریکا اور مغربی دنیا سمیت پوری دنیا میں ایک طرح سے اپنی پذیرائی میں اضافہ کیا ہے اپنے سفارتی رابطوں سے اس بھارتی آشا کو پورا ہونے نہیں دے گا۔اور روشن ضمیر انسانی برادری کو باور کرانے میں کامیاب ہو جائے گا کہ کشمیر کے بارے میں بھارتی مودی سرکار کے ظالمانہ اور یکطرفہ اقدامات پر مہر لگانے سے باز رہا جائے۔
بلا شبہ بھارت کی عالمی منڈی ہونے کے ناطے ایک اہمیت ہو سکتی ہے لیکن پاکستان کی جیو پولیٹکل اہمیت کو کوئی بڑی طاقت بھی یکسر نظر انداز نہیں کر سکتی ہے۔ اس لیے کوئی ملک نہیں چاہے گا کہ بھارت کو اسرائیلی سوچ اور عمل میں ڈھالنے میں اس کی مدد کے لیے تمام تر انسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین اور خطے کی جلی حقیقتوں اور چیلنجز کو نظر انداز کر دے۔اس لیے بھارت کو لازماً گروپ 20 کا اجلاس بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں کرانے کا فیصلہ واپس لینا ہو گا اور اپنی آشا مارنی پڑے گی۔ بصورت دیگر بھارت کے خطے میں امریکی تھانیدار کے طور پر ابھرنے کے مضمرات پورے خطے کو بھگتنا ہوں گے۔جبکہ بھارت کی مودی سرکار کو ’واک اوور‘ دینے کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ بھارت میں بد امنی کی بدنما حقیقت کے سامنے آنکھیں موند لی جائیں اور اس طرح مودی اور ان کے ہندوتوا کی مدد کی جائے۔ اس صورت میں تو بھارتی عالمی منڈی کا تصور اندرونی احتجاجوں اور طبقاتی ٹکراؤ کی زد میں آ کر خود ہی کچلا جائے گا۔
ایسے میں نہ رہے گا بانس، اور نہ بجے گی بانسری!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔