توانائی کے بحران سے نمٹنے کا راستہ
شیئر کریں
پاکستانی معیشت پن بجلی کے بعد تیل اور کوئلے سے پیدا کردہ توانائی پر بھاری انحصار کرتی ہے، جس کی وجہ سے اس سال شدید موسم گرما میں ہم ایک انتہائی مشکل توانائی کے بحران کا شکار ہیں۔بین الاقوامی منڈی میں تیل اور کوئلے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روپے کی گرتی ہوئی قدر نے پاکستان کو نہ صرف ایک شدید معاشی بحران، مالیاتی خسارے اور بجلی کی کم پیداوار سے دوچار کر دیا ہے بلکہ عوام کو افراط زر کے بڑھتے ہوئے طوفان کے بھی آگے لاکھڑا کر دیا ہے۔ہم 2013 میں بھی اسی قسم کے توانائی کے بحران کا شکار بنے اور اس وقت حکومت کی ترجیحات میں بجلی کے نئے پیداواری یونٹ لگانے پر زور رہا۔ سی پیک منصوبے کے تحت بہت سارے پیداواری یونٹ ہماری توانائی مکس کا حصہ بنے۔چونکہ معدنی وسائل پر چلنے والے پیداواری یونٹ کم وقت میں اور جلد لگائے جا سکتے تھے تو اسی لیے بحران کا جلد از جلد مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ تر انہی پر انحصار کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ متبادل توانائی کے یونٹ اور پن بجلی کے ڈیم بنانے کا بھی سلسلہ شروع کیا گیا، مگر چونکہ ایسے پیداواری یونٹ بنانے اور چلانے میں کافی وقت اور خطیر سرمایہ درکار ہوتا ہے، اس لیے معدنی توانائی کے ذریعے چلائے جانے والے یونٹوں نے جلد پیداوار شروع کر دی۔
2018 تک توانائی کے بحران سے تقریبا کامیابی سے نمٹ لیا گیا، تاہم پچھلی حکومت نے 2021 میں یہ الزام لگایا کہ ضرورت سے زیادہ پیداواری یونٹ لگائے گئے اور پاکستان اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کر رہا ہے۔پھر ایسا کیوں ہے کہ اس سال ہم توانائی کے شدید بحران کا شکار ہیں۔ بظاہر اس کی واحد وجہ تیل اور کوئلے کے پیداواری یونٹس کا بند ہونا ہے کیونکہ ہمارے پاس تیل اور کوئلہ خریدنے کے لیے مالی وسائل کم پڑ گئے ہیں۔بڑھتے ہوئے گردشی قرضے کی وجہ سے تیل کمپنیوں نے حکومت کو تیل کی سپلائی میں بھی تعطل پیدا کردیا ہے۔ پچھلی حکومت کا سستی ایل این جی کی برآمد اور اس کے لیے معاہدوں کو سکینڈلائز کرنے سے ہم توانائی کے سستے ذریعے سے بھی محروم کردیئے گئے ہیں۔
توانائی کا بحران نہ صرف ہماری معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا رہا ہے ہے بلکہ عوام بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ مشکلات، آسانی سے ایک بڑے سیاسی اور سماجی بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ توانائی کے اس بحران کو دوراندیشی پر مبنی منصوبہ بندی کے تحت حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ معدنی وسائل پر چلنے والے پیداواری یونٹ خصوصا کوئلے اور تیل سے چلائے جانے والے کارخانے ماحول میں شدید آلودگی کا بھی سبب بنتے ہیں، جو ماحولیات کی تباہی کے علاوہ صحت کے شدید مسائل کو بھی جنم دیتے ہیں۔ہماری توانائی کی حکمت عملی میں بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے اور معدنی وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اب ہماری توجہ متبادل توانائی کے ذرائع پر ہونی چاہیے جن میں سب سے بڑے ذرائع شمسی اور ہوائی توانائی ہیں۔
پاکستان دنیا کے چند بڑے ممالک میں شامل ہے، جہاں سارا سال شمسی توانائی وافر مقدار میں مہیا ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے توانائی کے اس اہم اور سستے ذریعے سے عوام کو فائدہ پہنچانے کی سرکاری سطح پر مناسب حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے۔
شمسی توانائی کا استعمال کوئی بہت نئی دریافت نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آج سے 30 سال پہلے ایتھنز میں میری سفارتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران وہاں پانی گرم کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر شمسی توانائی کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ تقریبا ہر گھر اور اپارٹمنٹس میں سولر گیزر لگے ہوئے تھے اور دن رات گرم پانی کا حصول عام سی بات تھی۔ اس کی بہ نسبت پاکستان جہاں یونان کے مقابلے میں دھوپ زیادہ ہوتی ہے اب تک عوام کے لیے شمسی توانائی حاصل کرنے کا کوئی مربوط منصوبہ موجود نہیں ہے۔پچھلے چند سالوں میں جب بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں کی وجہ سے شمسی توانائی حاصل کرنے کے لیے عوام میں دلچسپی پیدا ہوئی تو اس سال کے شروع میں حکومت نے فورا اس پر جی ایس ٹی لگا کر اس کی قیمتوں میں تقریبا 30 سے 40 فیصد اضافہ کردیا۔گو یہ فیصلہ موجودہ حکومت نے نئے بجٹ میں واپس لے لیا ہے مگر شمسی توانائی کی کمپنیوں نے اپنی قیمتوں میں کمی کا اعلان ابھی تک نہیں کیا، بلکہ مختلف حیلوں بہانوں سے ان کمپنیوں نے قیمتوں میں مجموعی طور پر سو فیصد اضافہ کر دیا ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی شمسی توانائی کی کمپنی سے اس قسم کا ایک تلخ تجربہ مجھے بھی ہوا۔ انہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے دستخط شدہ معاہدے سے انحراف کرکے اور ایڈوانس رقم وصول کرنے کے باوجود سوفیصد اضافی رقم نہ دینے کی صورت میں معاہدے پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر دیا۔توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کو ان اقدامات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری توانائی کی پیداوار پر دبا کم کرنے کے لیے حکومت کو بڑے گھروں میں لازمی شمسی توانائی لگانے پر زور دینا چاہیے۔ اگر ضرورت ہو تو اس کے لیے مناسب قانون سازی پر بھی غور کیا جا سکتا ہے، کیونکہ گھریلو توانائی کا زیادہ استعمال بڑے گھروں میں ہوتا ہے تو ان کا شمسی توانائی استعمال کرنا ہمارے قومی گرڈ پر دبا کم کر سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ گھریلو شمسی توانائی کے یونٹ اضافی توانائی واپڈا کو دے رہے ہوں گے تو واپڈا کسی اضافی خرچ کے بغیر عوام کو سستی توانائی مہیا کر سکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑی کمپنیوں کے دفاتر میں بھی شمسی توانائی کا استعمال لازمی قرار دیا جاسکتا ہے۔ نو تعمیر بلند و بالا عمارتوں کے لیے بھی شمسی توانائی کا حصول لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔
اسی طرح چھوٹے گھروں کے لیے شمسی توانائی حاصل کرنے کے لیے بینکوں سے آسان اقساط اور کم شرح سود پر قرضے دیے جاسکتے ہیں۔ شمسی توانائی کے سستے حصول کے لیے سولر پینلز اور بیٹریوں پر کچھ عرصے کے لیے کسی قسم کے محصولات پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا طریقہ کار وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے جس کے ذریعے شمسی توانائی کی کمپنیوں کو عوام کو لوٹنے سے بچایا جا سکے۔
معدنی وسائل پر انحصار کم کرنے کے لیے حکومت کو ایک جامع منصوبے کے تحت تیل اور کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں کو آہستہ آہستہ ختم کرنا چاہیے اور ان کی جگہ متبادل توانائی کے ذرائع پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ایک امریکی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہوائی توانائی کے ذریعے 45 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جبکہ پاکستان میں متبادل توانائی کے مختلف ذرائع بشمول شمسی اور ہوائی توانائی اس وقت ہماری پوری توانائی کا صرف چھ فیصد یعنی 2170 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ حکومت کو مناسب ترغیبات دے کر ان اہم ماحول دوست وسائل کے استعمال پر توجہ اور ان میں سرمایہ کاری بڑھانے کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے زرمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر، تیل کی بہت بڑی درآمد پر خرچ ہو رہے ہیں۔ اس میں کمی لا کر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبا کم کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں بیٹری پر چلنے والی گاڑیوں کی درآمد بڑھانی چاہیے یا پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو مالی ترغیب دی جائے کہ وہ آئندہ پانچ برسوں کے اندر یا تو ہائبرڈ ٹیکنالوجی والے انجن یا مکمل بیٹری پر چلنے والی گاڑیوں کے انجن کا استعمال کرنا شروع کریں۔ اس سلسلے میں مناسب قانون سازی بھی اس تبدیلی کے عمل میں تیزی لا سکتی ہے۔ یہ تجربہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں کامیابی سے چلایا جا چکا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ ان چند اقدامات سے ہم اپنی معیشت کو درپیش دو بڑے چیلنجز، جن میں توانائی کی پیداوار اور تیل کی بڑھتی ہوئی درآمد شامل ہیں، کامیابی سے مقابلہ کر سکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔