ملک کوآگے لے جانے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرزکے مذاکرات کرناہوںگے، وزیراعظم
شیئر کریں
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگر ہم نے پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو گرینڈ ڈائیلاگ کرنا ہوگا ، معیشت ،صحت ،تعلیم ، زراعت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے ،گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے ہم ان شعبوںمیںبہت آگے بڑھ سکتے ہیں،کوئی بھی حکومت آئے یا جائے ان ایریاز کو ہاتھ نہ لگا سکے،قرض پر رہنے والا ملک کب تک زندہ رہے گا، ہمیں تو اس وقت دنیا میں سب سے آگے ہونا چاہیے تھا، بنگلہ دیش کو بوجھ کہا گیا لیکن آج اس کی برآمدات 40ارب ڈالر اور ہم 27سے28ارب ڈالر پر ہیں، ایک حکومت گئی دوسری حکومت آئی تو سب کچھ سیاست کی نظر کر دیا گیا ،اس سے تمام ادارے تباہ ہوئے ،اس طرح تو تباہی ہمارا مقدر ہے ، اگر ہم نے اپنی تقدیر کو بدلنا ہے تو ہمیں اقبال کے وژن کی پیروی کرنا ہو گی ،ماربل سے پتھر سے قومیں نہیںبنتیں ، اگر ایسا ہوتا تو پاکستان میں تو ماربل کے ان گنت محلات ہیںلیکن خلق خداہے ایک وقت کی روٹی کو ترستے ہیں ،دنیا میں پیٹرولیم کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں لیکن مارچ میں جب تحریک عدم اعتماد چل رہی تھی تو یہاں پر قیمتیں کم کر دی گئیں، آپ نے ساڑھے تین سال میں تو قوم کو ایک دھیلے کا ریلیف نہیں دیا ،ہم نے دل پر پتھر رکھ کر قیمتیں بڑھائیں،پوری کوشش کروں گاکہ غریب آدمی پر جو بوجھ پڑ رہا ہے ان کو ریلیف بھی دیں ،مجھے توآئے ہوئے ڈیڑھ سے پونے دو مہینے ہوئے ہیں، ساڑھے تین سال جو ہوا اور ملک یہاں پہنچا کیا اس کا بھی حساب لینا ہے یا مجھ سے ڈیڑھ مہینے کا حساب لینا ہے ، میںتواپنا حساب دینے کیلئے تیار ہوں،لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے کہہ دیا ہے کہ دو گھنٹے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ برداشت نہیںکروں گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے لاہور میں مخیر شخصیات کی جانب سے تعمیر کئے گئے انڈس ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آج میرے لئے انتہائی خوشی اور عزت اور مسرت کا موقع ہے کہ مجھے ایک ایسے ٹرسٹ ہسپتال کے افتتاح کیلئے دعوت دی گئی ہے جس کو ایسے لوگوںنے بنایا ہے جو بڑے عظیم پاکستانی اورخداترس ہیں،خدا نے انہیں بڑی نعمتوں سے نواز ا ہے مگر وہ جو رزق حلال کماتے ہیں اس میں سے قوم کی ترقی وخوشحالی میں پورا حصہ بٹاتے ہیں ،جو دولت انہوںنے شبانہ روز محنت کی بدولت کمائی ہے اس میں ان لوگوں کو بھی شامل کرتے ہیںجو سفید پوش اور مفلوک الحال ہیں ۔شہباز شریف نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 2013 میں میری ملاقات میاں احسان اور اقبال قرشی صاحب سے ہوئی تھی، انہوں نے مجھے کہا کہ ہم نے یونیورسٹی بنانی ہے یہ انسانی فلاح کا کام ہے اس میں کچھ مسائل ہیں انہیں حل کروادیں۔انہوں نے مجھے ہسپتال بنانے کا بھی کہا تھا لیکن اس وقتمیں نے ان سے طیب اردوان ہسپتال کو چلانے کی درخواست کی ، طیب اردوان 2010 میں سیلاب کے بعد ترک حکومت کے اشتراک سے طیب اردوان ہسپتال بنایا گیا تھا،یہ 60بیڈ کا ہسپتال تھا لیکن اسٹیٹ آف دی آرٹ تھا اور پورے پاکستان میں شاید آغا خان اس کا ہم پلہ ہوگا یاشوکت خانم یا دیگر کچھ ہسپتال ہوں گے ۔اس ہسپتال کو چلانے کے لئے حکومت اس کے قابل نہیں تھی کیونکہ میں جانتا تھاکہ حکومت اسے نہیں چلا سکتی تھی اور یہ بھی سرکاری ہسپتال بن جائے گا اورکبھی یہاںدوائی نہیںملے گی ، کبھی ڈاکٹر صاحب نہیں ہوں ے۔ انہوںنے کہاکہ معاشرے کے ہر طبقے میں چاہے وہ سیاسی میدان ہے ، بیورو کریسی ہے وہاں پر معاملات بسا اوقات خراب ہوتے ہیںاور میری یہی سوچ تھی کہ یہ ہسپتال کہیں سیاسی رنگ نہ اختیار کر جائے۔میں انڈس ہسپتال کے بانی ڈاکٹر باری کو طیب اردوان ہسپتال لے گیا اورہسپتال ان کے حوالے کیا اور انہوںنے اسے شاندارطریقے سے چلایا ۔شہباز شریف نے اس موقع پر ایک قصہ سنایا کہ جب میں نے پنجاب کے کرتا دھرتا بلائے تو ایک متعلقہ سیکرٹری نے کہا کہ یہ ہسپتال ان کے حوالے نہیں کیا جا سکتا اس کے لئے بولیاں دینا ہوںگی ۔میرا پارہ چڑھ گیا اور میں نے استفسار کیا کیا ہم دوائیاں منگوا رہے ہیں یامشینری منگوا رہے ہیں کہ سب سے کم بولی دینے والے کو ہم شفاف طریقے سے کنٹریکٹ ایوارڈ دیں گے،ہم یہ ہسپتال ایسے ادارے کو دینا چاہتے ہیں جو کہ دھیلے کامنافع نہیںلینا چاہتا بلکہ اس نے پنجاب حکومت کے مختص بجٹ میں اسے چلانا ہے ۔انہوںنے کہا کہ ایسے ہسپتالوں کو ایسے اداروں کے حوالے کیا جانا چاہیے جن کا نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں نام ہے اورکوئی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔میں نے اس افسر سے کہا کہ دکھی انسانیت ہے رحم کریں اوروہ آدمی خاموش ہو گیا،میںنے اپنا ڈنڈا چلایا اور ہسپتال ان کے حوالے کر دیا ۔پھر ہسپتال کو120بیڈز تک توسیع کی، وہاںآرتھو پیڈک سنٹربنایا اور اب وہ ہسپتال پورے علاقے میں مصروف ترین ہسپتال ہے اور شاید لاہور سے بھی لوگ وہاں علاج کے لئے جاتے ہیں، پنجاب حکومت نے اپنے وسائل سے اڑھائی سو بیڈز کے نئے ہسپتال کی توسیع کی لیکن ہم نے اس کا نام طیب اردوان ہی رکھااور فیصلہ کیا کہ ہم اپنے محسن کی تختی نہیںبدلیں گے،یہ صدقہ جاریہ ہے ۔