میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حشرت الارض کو شدید خطرات لاحق ، سرکاری ادارے نسل کشی میں آلہ کار بن گئے

حشرت الارض کو شدید خطرات لاحق ، سرکاری ادارے نسل کشی میں آلہ کار بن گئے

ویب ڈیسک
جمعه, ۳ جون ۲۰۲۲

شیئر کریں

ماحولیاتی ماہرین نے کراچی سمیت سندھ بھر میں پرندوں، جانوروں، چرند پرند حشرت الارض کو شدید خطرات لاحق ہونے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فطرت کو محفوظ کرنے کیلئے عوام اقدامات کرے، سرکاری ادارے نسل کشی میں آلا کار بن گئے ہیں، جبکہ ڈی جی سیپا نعیم مغل نے اعتراف کیا ہے کہ واٹر بورڈ ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سمیت دیگر سرکاری اداروں نے ماحولیاتی قوانین کی دھجیاں اڑادیں،کراچی کی ایئرکوالٹی بدترین ہوگئی ہے۔ جرأت کی خصوصی رپورٹ کے مطابق کراچی پریس کلب میں ایک سماجی تنظیم کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیاں اور میڈیا کا کردار کے عنوان سے ٹریننگ پروگرام منعقد کیا گیا، سیمینار میں ماحولیاتی ماہرین، صحافیوں، ماحولیاتی سماجی کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی،ٹریننگ پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سندھ ،بلوچستان کے کنٹری ڈائریکٹر طاہر رشید نے کہا کہ پاکستان میں اعلیٰ سطح کے اسپیشز موجود ہیں،پاکستان میں سینٹرل ایشیا کے ممالک سمیت دنیا کے دیگر ممالک سے ماضی میں نایاب اقسام کے جانور اور پرندے آتے تھے لیکن ماحولیاتی مسائل ، آبادی میں اضافے ، شکار کے باعث پرندے اور جانور پاکستان میں نہیں آ رہے، پاکستان میں اب بھی میملز کے 118اقسام، پرندوں کے 666نوع، رینگنے والے جانوروں کے 170 اقسام، کیڑے مکوڑوں کے 20 ہزار اقسام اور اس کے علاوہ لاتعداد چرند پرند موجود ہے جس کی شناخت نہیں ہوئی، ایک زمانی میں بنگالی چیتا کا مہمان سندھ تھا لیکن 1930 کے بعد بنگالی چیتا سندھ میں نہیں آیا، ایشیائی چیتے کا پاکستان میں آخری شکار صوبہ بلوچستان میں ہوا، گرین ٹرٹل ، ماس کروکوڈائل بھی بہت کم تعداد میں موجود ہیں، سندھ ، بلوچستان اور پنجاب میں تلور کے شکار کے باعث تلو ر کو شدید خطرات لاحق ہیں، بھارت میں بھی تلور موجود ہے لیکن وہاں پر شکار کی اجازت نہیں، بھارت میں مہمان پرندوں اور جانوروں کیلئے خوراک کی بوریاں کھول کر رکھ دی جاتی ہیں، اداکار سلمان خان پر ہرن کے شکار کا کیس سپریم کورٹ میں دائر ہوا لیکن افسوس ہمارے ہاں ایسا نہیں، نایاب اقسام کے جانوروں اور پرندوں کے تحفظ کیلئے لوگوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ ڈی جی سیپا نعیم مغل نے کہا کہ کراچی میں 570 ملین گیلن پانی ٹریٹ کرنے کے علاوہ سمندر میں خارج کیا جاتا ہے جس سے میرین لائف کو شدید خطرات ہیں،پانی ضائع کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ پانی کی کمی ہے، سمندر کو آلودہ کیا جارہا ہے، کراچی ایک صحراء ہے جس میں درخت اور ہریالی نہیں، شہر کی ایئر کوالٹی بدترین ہے ، خراب ایئر کوالٹی کے باعث کراچی کے 10 لاکھ لوگ اسپتال کا رخ کرتے ہیں، واٹر بورڈ آلودہ پانی کو ٹریٹ نہیں کرتا، سالڈ ویسٹ کچرہ کو آگ لگاتا ہے اس طرح سرکاری ادارے ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، سرکاری اداروں کے خلاف کیا اور کیسے کارروائی کریں، کنٹونمٹ بورڈ کے افسران کو خط ارسال کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ آپ نے خط لکھنے کی ہمت کیسے کی ؟ ٹریننگ پروگرام ماحولیاتی صحافی شبینہ فراز، ایکالاجسٹ رفیع الحق،سیپا کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل وقار حسین پھلپوٹو اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں