ایم ڈی اے میں 1200 ارب کی زمینیں ہڑپنے والے 244 قبضہ گیر خطرے میں
شیئر کریں
( رپورٹ-امجد حنیف ) ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی پر کراچی سسٹم (حکومت سندھ کی مدد سے کراچی کی زمینوں پر سرکاری و غیر سرکاری منظم قبضہ مافیا) کے ذریعہ1200 ارب روپے مالیت کی 5 ہزار ایکڑ زمین ہڑپنے والوں کے خلاف منگل سے کارروائی کی تیاریاں، ایکشن پلان تیار، اطلاعات کے مطابق کراچی سسٹم کے ذریعے ہڑپ کی گئی زمینیں واگزار کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ قبضہ ہونے والی زمینوں میں سے جہاں کارروائی کا امکان ہے اْن میں اسکیم 45 تیسر ٹاون میں 1200 ایکڑ اراضی پر قبضہ ہے،اس کے علاوہ 862ایکٹر اراضی مختلف سیکٹر کے الاٹ شدہ پلاٹوں پر کارروائی کا بھی امکان ہے جہاں جعلی خرید و فروخت کا گھناونا کاروبارجاری تھا۔ ذرائع کے مطابق اعلی انتظامی و عسکری اداوں کی باہمی مشاورات سے 244 لینڈ گریبرز کے خلاف کارروائی کی منظوری دی گئی ہے، جس میں کسی بھی زمین چور لینڈ گریبرز کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ مبینہ طور پر کراچی سسٹم کے سربراہ،سابق صدر آصف علی زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزرائ و اراکین اسمبلی سمیت دیگر کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش اور ہدایت جاری کر دی ہے۔اس میں رینجرز، پولیس، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کارروائی میں حصہ لینے کے لیے تیار رہنے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ زمینوں پر قبضے بھی ان ہی اداروں کے بدعنوان افسران کی ملی بھگت سے ہی ممکن ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں چیف سیکریٹری سندھ سہیل راجپوت کو تمام حساس اداروں بشمول رینجرز، تمام تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ موصول ہو چکی ہے۔ کمشنر کراچی محمد اقبال میمن کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں قانونی تقاضے پورا کرنے کیلیئے تمام اداروں کوہدایت جاری کر دی گئی ہے۔ کمشنر کراچی کی سربراہی میں سات اراکین پر مشتمل کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔ کمیٹی میں ایڈیشنل آئی جی کراچی، ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، چیئرمین آباد، بلدیاتی و شہری اداروں کے سربراہ کے ساتھ دو افسران کوآرڈینشن کریں گے۔ اسی طرح ضلعی اور سب ڈویڑن کی سطح پر الگ الگ کمیٹیاں تشکیل دی جا چکی ہے۔ جس کا حکمنامہ نمبرSo(C-IV)/SGA&CD/4-14/LG/21 بتاریخ 27 مئی 2022 کو چیف سیکریٹری سندھ محمد سہیل راجپوت کے دستخط سے جاری ہوا ہے، بڑے پیمانے پر لینڈ گریبرز کے خلاف ایکشن کی تیاری تیزی سے جاری ہے۔ اس بارے میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اخبارات میں اطلاع عام کے اشتہار کے ذریعہ قابضین اور غیر قانونی تجاوازت رکھنے والوں کو خبردار کردیا ہے، جس میں تیسر ٹاون کے مختلف 40 سیکٹرز میں قابضین کی اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں جن میں الاٹ شدہ رہائشی سیکٹرز،53، 54،40،37-A، 31-B،41-A، 47،52،29،25،85،77، 12،91،93،11، اور تجارتی پلاٹوں پر مشتمل سیکٹرز میں 09،09-B،09-C،8-A،5-A،31-A،31، 10، 56، 33-B،33-D، 49-A، 42-A،48، 51-A،25-A،24،7-B، 2-B،35،34،08،13(KNBPکوریڈور)،36 میں قبضہ مافیا اور لینڈ گریبرز کے خلاف سخت کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے، لہذا ایسے شرپسند عناصر جو کسی بھی متذکرہ سیکٹر میں گاؤں، گوٹھوں کے نام پر ناجائز قبضہ شدہ زمینوں اور غیر قانونی تجاوزات رکھتے ہیں وہ سات یوم یعنی 4 جون کے اندر اندر خالی کر دیں، بصورت دیگر ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، ضلعی انتظامیہ، حکومت سندھ کے اینٹی انکروچمنٹ ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اسٹیٹ اینڈ انفورسمنٹ کے ڈائریکٹر اختر میؤ کا کہنا تھا کہ بروز منگل سب سے پہلے کارروائی تیسر ٹاون کے سیکٹر 47 میں رہائشی پلاٹوں پر قابضین سے زمین واگزار کرنے کے لیے آپریشن کیا جائے گا۔ اس بارے میں سندھ ہائی کورٹ نے پہلے ہی حکم صادر کر رکھا ہے۔ قابضین کے خلاف کارروائی میں پولیس، اینٹی انکروچمنٹ پولیس، رینجرز، سمیت دیگر ادارے حصہ لیں گے۔ واضح رہے کہ حکومت سندھ نے ایک حکمنامہ میں کراچی سسٹم کے نگران،ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل حاجی احمد کو فارغ کر دیا ہے۔ دو سال کے دوران زمینوں پر قبضہ کرنے والوں، سہولت کاروں، گھناونا کاروبار میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کے ساتھ زمین واگزار کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ان زمین چوروں کے خلاف نہ کوئی تحقیقات، نہ کمیٹی کا قیام، نہ کسی افسر یا عملے کے خلاف کارروائی، نہ قابضین کے خلاف اب تک کارروائی کی گئی اور نہ ہی زمین سے محروم الاٹیز کی زمین واگزار کرائی گئی۔ ان میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایڈیشل ڈائریکٹر ناصر خان، سیکریٹری ایم ڈی اے ارشد خان، ڈائریکٹر فنانس اسد بلوچ (جعلی افسرکو فنانس جیسے منافع بخش عہدے پر تعینات کیا گیا)،ڈپٹی ڈائریکٹر لینڈ آغا زبیر ولد آغا نادر(یہ سپریم کورٹ کے حکم کے برخلاف تعینات ہیں)، ڈائریکٹر قانون، ڈائریکٹر اسٹیٹ، انفورسمنٹ، ڈائریکٹر لینڈ،محمد عرفان بیگ، ڈائریکٹر پلاننگ لیئق احمد، سابق ڈائریکٹر جنرل ایم ڈی اے حاجی احمد اور ایک نام نہاد صحافی(جو پیسوں کے بل بوتے پر نام نہاد صحافی تنظیم کا سربراہ بن گیا) کی گرفتاری کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ لینڈ گریببرنگ اور قتل کے مقدمہ درج ہونے پر عرفان بیگ کو ملازمت سے معطل کرکے رپورٹ محکمہ بلدیات ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ میں کرنے کی ہداہت کی گئی تھی لیکن چمک نے سب کی آنکھیں خیرہ کر دیں اور وہ بغیر تحقیقات کے ملازمت پر بحال ہو گئے، تاہم قتل کے مقدمہ پر ضمانت منسوخ ہونے پر چند روز قبل سندھ ہائی کورٹ سے فرار ہو گئے تھے۔ ان کو ڈائریکٹر کوآرڈینشن اور لیئق احمد کو ایڈیشنل ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ مقرر کرنے پر سوالیہ نشان اٹھ گئے تھے جبکہ ایم ڈی اے کو بالواسطہ دیکھنے والے اور کراچی سسٹم کے مرکزی شخص محمد علی شیخ کے ساتھ نام نہاد صحافی تنظیم کے لیڈر، علی حسن بروہی کے ساتھ علی حسن زرداری بھی شامل ہیں۔ جب تک کراچی سسٹم کے تمام کرداروں کو عبرت کا نشان نہیں بنایا جاتا اس وقت تک کئی سوال کھڑے ہو سکتے ہیں۔ کے ڈی اے کی جانب سے 1986 میں اعلان کردہ گزٹ جسے بعد ازاں ایم ڈی اے ایکٹ 1993 کے ذریعہ سال 1995ئ میں ایم ڈی اے کو منتقل کردیا گیا تھا،تب سے ایم ڈی اے اس اسکیم کو ایم ڈی اے (ریوینیو اینڈ امینڈنگ) ایکٹ 2013کے تحت انجام دے رہی ہے جو نہ ہی آج ہے نہ ہی نوٹیفکیشن کے وقت تھا، نہ ہی نی او آر سندھ کی جانب سے متعلقہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی(KDA/MDA)کو ریونیو ریکارڈ کے ساتھ فزیکل قبضہ حوالہ کرتے وقت تھا۔ اس لحاظ سے اب تک خود ایم ڈی اے بھی جعلسازی میں ملوث ہے۔