بلوچستان پر نااہلوں کا تسلط
شیئر کریں
موجودہ دستوری اور قانونی الجھنیں اور سیاسی بحران در حقیقت ملک کی ترقی اور جمہوریت کے دوام و استحکام کے لیے اچھا نہیں ہے۔ عوام اس پوری صورتحال میں مضطرب ہیں۔ آغاز پہلے کی مانند اس بار بھی بلوچستان سے ہوا ہے،کہ جب نواب جام کمال خان عالیانی کے خلاف خفی و جلی مکروہ بازی کے تحت عدم اعتماد کا پتہ استعمال کیا۔ بالآخر جام کمال خان کو25اکتوبر2021ء میں مستعفی ہونا پڑا۔ ایک پڑھے لکھے ، ذہین اور با صلاحیت وزیراعلیٰ کی جگہ عبدالقدوس بزنجو جیسے سطحی اور اس بڑے منصب کے لیے قطعی نا اہل شخص نے لے لی۔ بد قسمتی ہے کہ جنوری2018ء میں صوبے میں نواز لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کی حکومت گرا کر چھ ماہ کے لیے عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنائے گئے۔اس مختصر عرصہ میں رقم ہونے والی طرح طرح کی داستانوں سے سبق کی بجائے انہیں دوبارہ اس قدر بڑے اور معزز آئینی عہدے پر بٹھایا گیا۔
پچھلے چھ ماہ کی حکومت کی تقلید میںاس عرصہ میں بھی انہونیاں ہوئی ہیں، نئی کہانیاں رقم ہوئی ہیں۔ غرض کہ بلوچستان میں ایک بار پھر سیاسی دائو پیچ کا آغاز ہوا ہے۔ تاہم اس بار اسے منفی چشمک کی بجائے احسن قدم کہنا چاہیے کہ یہ صوبہ گو نا گوں مشکلات و مسائل میں الجھا ہوا تو ہے ہی، مستزاد یہ کہ زمام حکومت بھی قطعی نا موزوں افراد کے ہاتھوں میں ہے۔جس سے عوام کے جذبات و استحقاق مزید مجروح ہوئے ہیں۔ اب 18مئی2022ء کو جام کمال خان عالیانی ،سردار یار محمد رند اور اصغر اچکزئی کی معیت میں عبدالقدوس بزنجو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی سیکریٹری کے پاس جمع کرائی گئی جس پر حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سات ارکان جام کمال خان، میر ظہور بلیدی ، نوابزادہ طارق مگسی، میر عارف جان محمد حسنی، میر سلیم کھوسہ ، مٹھا خان کاکڑ، سردار سرفراز ڈومکی، پاکستان تحریک انصاف کے چار اراکین سردار یار محمد رند، مبین خان ، میر نعمت اللہ زہری، بی بی فریدہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے تین ارکان اصغر خان اچکزئی، ملک نعیم بازئی، شاہینہ کاکڑ کے دستخط موجود ہیں۔ گویا14ارکان نے عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کیے ہیں۔جام کمال خان چونکہ بی اے پی کے صدر ہیں، اس حیثیت سے اس نے پارٹی کے ارکان اسمبلی کو نوٹس جاری کر تے ہوئے پارٹی ارکان اسمبلی کو ہدایت کی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز اسمبلی میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں،خلاف ورزی کی صورت میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ عبدالقدوس بزنجو اینڈ کمپنی میں کھلبلی تو پہلے ہی مچی رہی ،تحریک کے جمع ہونے کے بعد اب ان کی دوڑیں لگ گئیں۔ پیش ازیں و بعد جمعیت علماء اسلام کے مولانا عبدالواسع، مولانا عبدالغفور حیدری و اراکین بلوچستان اسمبلی اور دوسرے ذرائع جو موثر سمجھے جاتے ہیں کے
در پر حاضری دینا شروع کردی۔چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی شانہ بشانہ ہیں ، کیوں کہ سنجرانی کو اپنے منصب کے چھن جانے کا خوف لاحق ہے۔ جام کمال خان اور ان کے ساتھی پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق وفاق میں تحریک انصاف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ساتھ دینے کے بدلے بلوچستان میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی میں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ جس کے تحت بلوچستان عوامی پارٹی کے چار ارکان قومی اسمبلی میر خالد مگسی، سردار اسرار ترین،احسان اللہ ریکی اور روبینہ عرفان نے صوبے میں تبدیلی کی شرط پر پی ڈی ایم کا ساتھ نبھایا۔ کچھ ایسا لگتا بھی ہے، وگرنہ یہ لوگ کسی صورت عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے میں پہل نہ کرتے۔ اور اس ذیل میں سردست جمعیت علماء اسلام بارے یہ لوگ پرامید ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل البتہ لا علمی کا اظہار کرچکے ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ صوبے میں تبدیلی سے متعلق کئے گئے کسی بھی عہدکا انہیں علم نہیں ،اور تحریک عدم اعتماد پر پارٹی اور اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے فیصلہ کریں گے۔
بہر حال قومی اسمبلی کے اندر نازک صورتحال میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ان چار ارکان قومی اسمبلی کی ضرورت بد ستور اہمیت کی حامل ہے۔ ویسے وفاق کی ضرورت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو صوبے کی خراب حکمرانی اور بنی درگت پر کوئی ملال و پریشانی نہیں ہے۔ یہ جماعتیں اس قحط الرجال میں راحت سے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی تو جیسے صوبے کی حکمرانی میں پوری طرح حصہ دار ہو۔ حمل کلمتی جیسے کارندے اور اپنے ایک دو مزید ارکان کے توسط سے منہ مانگے فوائد حاصل کیے ہوئے ہے ۔ عبدالقدوس بزنجو عدم اعتماد کی تحریک کے جمع ہونے کے بعد حمایت بٹورنے پارٹیوں اور اراکین اسمبلی کو مزید بڑی بڑی پیشکش کر چکے ہیں۔سرکاری فنڈز کا غلط استعمال ویسے ہو رہا ہے۔اہل اور سینئر افسران پس منظر میں دھکیلے گئے ہیں۔ٹھیکیدار، کمیشن خور اور ملازمتیں فروخت کرنیوالے چھائے ہوئے ہیں ۔درگئی شبوزئی تا تونسہ شریف قومی شاہراہ (این ستر) منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ، رفیق احمد بلوچ کا تبادلہ اس بنا کیا گیا ہے کہ اس نے سست اور غیر معیاری کام اور با اثر ٹھیکیداروں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ حالاں کہ اس آفیسر کی اچھی شہرت ہے ،جو پیش ازیں تربت میں ترقیاتی منصوبوں کی عمدہ تکمیل کرکے نام کما چکے ہیں۔نیز مالی سال 2021-22کے ایک کھرب 72ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں اب تک صرف84ارب روپے جاری ہوسکے ہیں ، اس میں سے بھی صرف38ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ وجہ فنڈ کے اجراء میں تساہل ،غفلت اور دوسری وجہ حزب اختلاف کو قریب لانا ہے۔بجٹ کے لئے فنڈز کی کمی اور87ارب روپے کے خسارے کے باوجود عبدالقدوس بزنجو نے28ارب روپے کی لاگت کی 861اضافی ترقیاتی اسکیمات کی منظور ی دیدی۔ جن کے لئے رواں مالی سال 12ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ جبکہ فنڈز کی کمی کے باوجود اسکیمات کو بجٹ میں شامل کیا گیا ۔گویا بد انتظامی کا دور دوراں ہے ۔ عیاں ہے کہ محض چند کے سوا کسی کو صوبے کی بہبود و نفع سے غرض نہیں ہے۔ اغراض، ذاتی اور گروہی مفادات مقدم سمجھے جاتے ہیں۔وگرنہ آج صوبہ بے پناہ مسائل ، غربت و پسماندگی کی علامت نہ ہوتا۔ شدت پسندانہ رویے پروان نہ چڑھتے، نہ نوبت خواتین کی موت کے راستے کے انتخاب کی آتی۔ اس سب کے لیے اگر کوئی دوسرا تیسرا ذمے دار ہے، تو قصور وار صوبے کے عوامی نمائندے اور اہل سیاست بھی برابر ہیں۔ جہاں پوری حکومت دو تین جونیئر افسران چلا تے ہوں تو صوبہ اتھاہ پستی کا شکار کیسے نہ ہوگا۔ ایسے ماحول میں دوہرا قوم دوستی کا لبادہ اوڑھے دوہرے سیاسی معیار کے وزراء و اراکین اسمبلی البتہ فائدے میں رہتے ہیں۔ چناں چہ صوبے میں حکومت کی تبدیلی نا گزیر ہے۔ ضروری ہے کہ گہری سوچ بچار اور باہمی مشاورت سے ایسے شخص کو وزارت اعلیٰ کا یہ اہم اوربھاری منصب دیا جائے ،جو منصب سے انصاف کرتے ہوئے صوبے اور عوام کے حق کا تحفظ یقینی بنائے۔ صوبے کے اندر سیاسی ماحول خوشگوار بنانے کی خاطر ذات، خاندان اور گروہی مفاد سے ہٹ کر کام کرے۔ وہ تمام لوگ و حلقے اپنے گریبانوں میں ضرور جھانک کر دیکھیں جنہوں نے یکے بعد دیگرے اس صوبے پر نا شائستہ لوگوں کو مسلط کرکے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ یقینی طور یہ سب ان مسلسل ناکامیوں اور بربادیوں کے لئے جوابدہ ہیں۔ قدوس بزنجو نے ردعمل میںتحریک عدم اعتماد پر دستخط کرنے والوں کو کابینہ اور عہدوں سے سے ہٹانے کا نو ٹیفکیشن جاری کیا ،حالانکہ کابینہ سے علیحدگی اور عہدے چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پہلے ہی اپنے استعفے بھیج چکے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔