گیان واپی مسجد کو مندر قرارنہیں دیا جاسکتا، مسلمان برادری بی جے پی کے سامنے ڈٹ گئی
شیئر کریں
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈنے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد، مسجد ہے اور مسجد ہی رہے گی، اس کو مندر قرار دینے کی کوشش فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کی ایک سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔کشمیرمیڈیاسرووس کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے نئی دلی میں ایک بیان میں کہاکہ مسجد سے متعلق وارانسی عدالت کا فیصلہ تاریخی حقائق کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہاکہ1973 میں دین محمد بنام اسٹیٹ سکریٹری مقدمے میں عدالت نے زبانی شہادت اور دستاویزات کی روشنی میں یہ بات طے کردی تھی کہ یہ پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے۔ عدالت نے یہ بھی طے کر دیا تھا کہ متنازعہ اراضی کا کتنا حصہ مسجد کاہے اور کتنا حصہ مندرکا ہے۔ اسی وقت وضو خانہ کو مسجد کی ملکیت تسلیم کیا گیا۔ پھر 1991 میں پارلیمینٹ نے مذہبی عبادات کے مقامات سے متعلق ایکٹ کی منظوری دی ،جس میں عبادت گاہیں جس طرح تھیں ان کو اسی حالت پر قائم رکھے جانے کی ہدایت کی گئی ۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہاکہ 2019 میں بابری مسجد کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے بہت صراحت سے کہا تھاکہ اب تمام عبادت گاہیں اس قانون کے تحت ہوں گی اور یہ قانون دستور ہند کی بنیادی روح کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس فیصلہ اور قانون کا تقاضہ یہ تھا کہ مسجد پر ہندو فریق کے دعوے کو عدالت فورا خارج کردیتی، لیکن یہ بات افسوسناک ہے کہ بنارس کی سول کورٹ نے اس مقام کے سروے اور ویڈیو گرافی کا حکم جاری کیا، وقف بورڈ اس سلسلہ میں ہائی کورٹ سے رجوع کرچکا ہے اور ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ زیر التوا ہے۔خالد سیف اللہ نے کہا کہ اسی طرح گیان واپی مسجد کی انتظامیہ بھی سول کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرچکی ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر سماعت ہے، لیکن ان تمام نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے سول عدالت نے پہلے تو سروے کا حکم جاری کر دیا اور پھر اس کی رپورٹ قبول کرتے ہوئے وضو خانہ کے حصہ کو سربمہر کرنے کا حکم جاری کردیاجوکہ غیر قانونی ہے جس کی کسی بھی عدالت سے ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی۔ عدالت کے اس عمل نے انصاف کے تقاضوں کو مجروح کیا۔