پرانے پاکستان کے بعد پرانے کراچی کی واپسی؟
شیئر کریں
افلاطون نے ایک بار کہا تھا کہ ’’سیاست میں حصہ نہ لینے کی ایک سزا یہ ہے کہ آخرِ کار آپ سے کمتر لوگ آپ پر راج کرنے لگتے ہیں‘‘۔لیکن کراچی کے باسیوں کا سب سے بڑا المیہ اور دُکھ یہ رہاہے کہ انہوں نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک سیاست میں بھرپور انداز میں حصہ لیا ،مگر پھر بھی کراچی پر راج ہمیشہ سے کمتر لوگوں کا ہی رہا۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کراچی نے جس سیاسی رہنما کو بھی اپنے بھرپور عوامی مینڈیٹ سے نوازا، اُسی رہنما نے اِس شہر پری تمثال کوبنیادی عوامی سہولیات مہیا کر کے اَمن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے بجائے بدامنی ، انارکی اور قتل و غارت گری کے اندوہناک تحفے دیئے ۔ سوائے ایک دو استثنائی صورتوں کہ جب کراچی کا انتظام و انصرام نعمت اللہ خان یا مصطفی کمال جیسے کسی عوام دوست سیاست دان کے رہین منت رہاتھا۔آج کل خبریں گرم ہیں کہ کراچی ایک بار پھر اُن ہی لوگوں کے حوالے کیا جارہا ہے ،کہ چند برس قبل جن کے استبدادی پنجوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اہلیانِ کراچی کو بازیاب کروایا تھا۔
آپ بھی پڑھیئے اور اپنا سر دھنئے کہ نئی وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کی رہنما نسرین جلیل کو گورنر سندھ نامزد کردیا ہے اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے نسرین جلیل کو گورنر سندھ تعینات کرنے کی سمری صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھیج دی گئی ہے، جسے بہر حال جلد یا بدیر منظور کرہی لیا جائے گا۔ یوں سابق ڈپٹی مئیرکراچی، نسرین جلیل صاحبہ سندھ کے 34ویں گورنرکی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گی۔وہ سندھ کی دوسری خاتون گورنرہونگی اس سے قبل بیگم رعنا لیاقت علی خان 15فروری 1973تا 28فروری 1976سندھ میں گورنر کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے چکی ہیں۔یاد رہے کہ نسرین جلیل کی سیاسی شناخت ایم کیوایم سے زیادہ بانی ایم کیو ایم کے ساتھ اُن کی غیر مشروط سیاسی وفاداری ہے ۔ بظاہر دنیا دکھاوے کے لیے کو ایم کیو ایم کے ساتھ لندن کے بجائے پاکستان کا لاحقہ جڑ چکا ہے مگر نسرین جلیل کا شمار اُن چند نادر و نایاب رہنماؤں میں ہوتا ہے ،جنہیں آج بھی بانی ایم کیو ایم کا معتمد خاص سمجھا جاتا ہے ۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی حلقوں میں نسرین جلیل کے گورنر سندھ بنائے جانے کی خبر کو لندن کی ایک بڑی سیاسی کامیابی کے طور پر دیکھا جارہاہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نسرین جلیل لاہورمیں پیداہوئیں مگرزندگی کا کم و بیش بیشترحصہ کراچی ہی میں گزرا ہے، وہ دو مرتبہ سینیٹ کی رُکن منتخب ہو چکی ہیں ۔2002 میں نسرین جلیل نے این اے 250سے عام انتخابات میں حصّہ لیا، لیکن کامیابی حاصل نہ کر سکیں اور بدترین شکست سے دوچار ہوئیں۔ تاہم، نسرین جلیل نے 2012 میں سینیٹ کے انتخابات میں بھر پور کامیابی حاصل کرلی تھی۔وہ متحدہ قومی موومنٹ کی ڈپٹی کنوینر اور اکنامک اینڈ فنانس ریونیو اور پرائیوٹائزیشن سمیت سینیٹ کی کئی کمیٹیوں کی چیئر پرسن بھی رہیں۔ایم کیو ایم کے خلاف کراچی میں آپریشن کے آغاز کے دوران نسرین جلیل کو بھی گرفتار کیا گیا تھااور اُن پر مقدمہ چلانے کے بعد3سال کی سزا کاٹنے کے لیے جیل بھیج دیا گیاتھا۔ بعد ازاں 6ماہ کی اسیری کے بعد انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا، مگر اس دوران سینیٹ کے چیئرمین کی جانب سے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر وہ سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کرنے لگیں۔نسرین جلیل پہلی مرتبہ1994 اور دوسری مرتبہ 2012ء میں سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کی چیئر پرسن بنیں اور اسی حیثیت میں بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے پارلیمانی پلیٹ فارم پر اپنی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے ایم کیو ایم کی رہنما نسرین جلیل صاحبہ کو گورنر سندھ بنائے جانے کی سمری بھیجنے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’کرائم منسٹر نے نسرین جلیل کا نام سندھ کے نئے گورنر کے طور پر تجویز کیا ہے ، جن محترمہ نے 18 جون 2015 کو انڈین ہائی کمیشن کو خط لکھا اور پاکستان کے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے خلاف تعاون مانگاتھا،اور ہمیں دکھ اس بات کا ہے کہ کراچی میں جو گند سکیورٹی اداروں نے بڑی محنت سے صاف کیا تھا وہ واپس آرہا ہے‘‘۔بظاہر فواد چوہدری کی جانب سے دیا گیایہ ایک سیاسی بیان ہے، جس کا مقصد صرف اور صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے سوا کچھ اور نہیں۔ کیونکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام کروانے کے عوض پاکستان تحریک انصاف نے بھی ایم کیوایم کو اُن کی مرضی کے عین مطابق کسی بھی شخص کو سندھ کا گورنر بنانے کی پیشکش کی تھی ۔ یعنی اگر ایم کیوایم تحریک عد اعتماد ناکام بنانے کے لیے متحدہ اپوزیشن کے بجائے تحریک انصاف کی پیشکش کو قبول کرلیتی تو شاید آج تحریک انصاف نسرین جلیل کو گورنر سندھ کا منصب ہدیہ تبریک کے طور پر پیش کررہی ہوتی ۔
بہرکیف تحریک انصاف کے سیاسی تحفظات اور بیان بازی سے قطع نظریہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ گورنر سندھ کے آئینی عہدے پر نسرین جلیل کی تعیناتی وفاقی حکومت کا ایک ایسا غیر مقبول سیاسی فیصلہ ہے ،جس پر صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی نہیں بلکہ کراچی کی عوام بھی شدید مضطرب دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ کسی بھی صوبے کا گورنر فقط ایک آئینی سربراہ ہوتا ہے اور اس کے پاس انتظامی اختیارات نہ ہونے کے برابر ہی ہوتے ہیں اور ویسے بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے طاقت ور وزیراعلیٰ کی موجودگی میں کسی دوسری سیاسی جماعت کا گورنر سندھ اگر چاہے بھی تو اپنے پَر پرُزے نہیں نکال سکتا۔ اس لیے نسرین جلیل کے گورنر سندھ بن جانے سے سندھ کے سیاسی منظر نامہ میں کوئی بڑی جوہری تبدیلی کی توقع اور اُمید تو خیر کسی کو بھی نہیں ہوگی ۔مگر اُس کے باوجود نسرین جلیل صاحبہ کے گورنر سندھ کے منصب کے فائز ہونے کی مصدقہ خبر سننے کے بعد عام لوگوںکے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پنپنے لگا ہے کہ کیا پرانے پاکستان کے ساتھ پرانے کراچی اور پرانی ایم کیو ایم کا تاریک دور بھی واپس لائے جانے کی تیاری کی جاچکی ہے؟۔
٭٭٭٭٭٭٭