قومی اسمبلی کااجلاس صبح گیارہ بجے طلب
شیئر کریں
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان وزیراعظم کی کرسی پر مزید براجمان رہیں گے یا نہیں ،فیصلہ (آج)اتوار 3 اپریل کو ہوجائے گا۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی جانے والی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ (آج)3 اپریل کو ہوگی اس سلسلے میں قومی اسمبلی کا اجلاس صبح ساڑھے 11 بجے طلب کیا گیا ۔وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر قوم سے خطاب میں واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیں گے اور آخری گیند تک کھیلیں گے، یعنی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ پکی ہے،تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے نتیجے سے تو ہم 3 اپریل کو آگاہ ہو ہی جائیں گے۔آئین پاکستان کے تحت کسی بھی وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے موجودہ اسمبلی کی کل تعداد کی سادہ اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے،موجودہ حکومت جب قائم ہوئی تو ایوان زیریں میں مجموعی ارکان کی تعداد 342 تھی تاہم تحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی خیال زمان خان انتقال کرگئے اور اب ایوان 341 ارکان پر مشتمل ہے،آئین کے تحت تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سادہ اکثریت ثابت کریں لہٰذا ووٹنگ والے دن اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کیلئے 172 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔کہا جاتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد اگلے چھ ماہ تک دوبارہ کوئی عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائی جاسکتی البتہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب نے بتایا کہ آئین میں ایسی کوئی قدغن نہیں کہ 6ماہ تک دوبارہ تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے بتایا کہ عملی طور پر بہرحال ایک تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد فوری طور پر دوسری تحریک کا آنا ممکن نہیں ہوتا اور اس میں وقت درکار ہوتا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو انہیں فوری طور پر عہدے سے سبکدوش تصور کیا جائیگا کیوں کہ آئین میں لکھا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی قرارداد قومی اسمبلی کی مجموعی رکنیت کی اکثریت سے منظور کرلیا جائے تو وزیراعظم عہدے پر فائز نہیں رہے گا،یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ وزیراعظم صرف عہدے سے فارغ ہوں گے رکن قومی اسمبلی برقرار رہیں گے، وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی،اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران کی کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی البتہ اسپیکر اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔اعتماد کھونے والے وزیراعظم نئے وزیراعظم کے انتخاب تک کام جاری رکھ سکتے ہیں،سربراہ پلڈاٹ احمد بلال کے مطابق تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے باوجود صدر مملکت اگر چاہیں تو وہ وزیراعظم سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ نئے وزیراعظم کا انتخاب ہونے تک کام جاری رکھیں البتہ ایسا ضروری نہیں یہ صدر کی صوابدید ہے، ایسی صورت میں یہ ایک عارضی سیٹ اپ ہوگا تاکہ کوئی خلاء نہ رہے۔احمد بلال کے مطابق آئین کا آرٹیکل 94 یہی کہتا ہے کہ صدر مملکت چاہیں تو اس وزیراعظم کو جس کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی ہو، نئے وزیراعظم کے انتخاب تک کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں اور اس حوالے سے مدت کا تذکرہ نہیں ہے کہ کب تک اعتماد کھونے والا وزیراعظم صدر کی ہدایت پر عہدے پر کام جاری رکھ سکتا ہے۔سربراہ پلڈاٹ کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد یہ ظاہر سی بات ہے کہ نئے وزیراعظم کا انتخاب کوئی بہت زیادہ طویل مرحلہ نہیں بلکہ چند دنوں کی بات ہوتی ہے،اسمبلی بزنس رولز کے مطابق کسی بھی وجہ سے اگر وزیراعظم کا عہدہ خالی ہوجائے تو قومی اسمبلی اپنی ہر کارروائی چھوڑ کر وزیراعظم کا انتخاب سب سے پہلے کریگی البتہ یہاں بھی نئے وزیراعظم کے انتخاب کیلئے وقت کی قید کا تذکرہ موجود نہیں۔