جنگ کی بہتی گنگا میں اسرائیلی اشنان
شیئر کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منصور جعفر
۔۔۔۔۔
روس کی یوکرین کے خلاف یورش سے متعلق اسرائیلی نقطہ نظر کا جائزہ لیا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ صیہونی ریاست ایک ’نیوٹرل ‘پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ تاہم اسرائیل نام نہاد نیوٹرل پالیسی میں اپنی دفاعی، سفارتی اور معاشی ضروریات کے مطابق سہولت کے ساتھ تبدیلی کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ جنگ کے جلو میں پالیسی کا چناؤ اسرائیل اپنے قلیل اور طویل المدتی فوائد کو سامنے رکھ کر کررہا ہے ۔دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ یوکرین جنگ کے شعلوں سے ایک طرف انسانیت بھسم ہو رہی ہے تو دوسری جانب اس کی راکھ پر اسرائیلی دفاعی اور سکیورٹی صنعت کی بلند وبالا عمارت تعمیر ہو رہی ہے ۔ اسرائیل اس جنگ سے مسلسل مادی اور سفارتی فوائد سمیٹ رہا ہے ۔
یوکرین جنگ سے اسرائیل کو ملنے والا پہلا فائدہ یورپ سے ملنے والے ان آرڈروں میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے جو نجی شعبے اور حکومتی سرپرستی میں چلنے والی اسرائیلی سکیورٹی سروسز کی تیارکردہ مصنوعات کو مل رہے ہیں۔ اسرائیل سے شائع ہونے والے بزنس اخبار ’دا مارکر‘ کے مطابق صیہونی ریاست کی تمام سکیورٹی صنعتوں کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔جرمن چانسلر اولاف شولس نے یوکرین پر روسی حملے سے پہلے اسرائیل کا عجلت میں ایک دورہ کیا جس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ جرمنی کے رواں سال کے میزانیے میں 113 ارب ڈالر اپنی فوج کو مضبوط بنانے کے لیے مختص کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔انہوں نے جرمن فوج کے لیے مقرر کردہ میزانیے میں ہر سال مجموعی قومی پیدوار کے تناسب سے دو فیصد سالانہ اضافہ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہی عہد بھی دہرایا کہ اس بات کو جرمن دستور کے ذریعے آئینی تحفظ دلوایا جائے گا تاکہ کوئی بھی حکومت اس سے پہلو تہی نہ کر سکے ۔
اسرائیل کی سکیورٹی منصوعات تیار کرنے والی صنعت سے وابستہ حکام نے بتایا کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران انہیں ملنے والے آرڈروں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ یہ آرڈر کسی ایک ملک نہیں بلکہ یورپ کے طول وعرض سے موصول ہو رہے ہیں۔زیادہ تر آرڈر روس کے ان ہمسایہ ملکوں سے آ رہے ہیں جو میدان جنگ کے زیادہ قریب واقع ہیں۔ ہنگری، بلغاریہ، چیک رپبلک، رومانیہ، سلوویکیا اور سویڈن نے اسرائیل سے زیادہ سے زیادہ ڈرونز، الیکٹرانک لڑاکا سسٹمز، جاسوسی اور مواصلاتی کنڑول اور اسلحہ سسٹم خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے ۔
اسرائیلی سکیورٹی صنعت کے اعلیٰ حکام کی تصدیق کی روشنی میں یورپی حکام کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ حالیہ جنگ نے خطرات کے محور تبدیل کر دیے ہیں۔ ماضی میں چین کو سب سے بڑا سکیورٹی خطرہ سمجھا جاتا رہا ہے ۔ اسی لیے روس کو در خور اعتنا نہیں جانا گیا لیکن اب انہیں معلوم ہو چلا ہے کہ چین اور روس دونوں سے یکساں طور پر خطرہ لاحق ہے ۔یوکرین میں سردست جو کچھ روس کر رہا ہے وہ سب ولادی میر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کے جلو میں ہوئی ملاقاتوں کا منطقی نتیجہ ہے ۔ ان ملاقاتوں کے بعد ہی چین نے تائیوان کو آنکھیں دکھانا شروع کیں۔ان ملاقاتوں نے اسرائیل اور اس میں کاروبار کرنے والی سکیورٹی صنعت کے لیے خوش قسمتی کے دروازے کھول دیے ۔ دفاعی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کار آنے والا دور ان صنعتوں کے لیے زیادہ آسودہ حال بیان کرتے ہیں۔
معاشی اہمیت کے باوجود اسرائیل اپنی سکیورٹی صنعت کے لیے پیدا ہونے والے کاروباری موقعوں سے زیادہ اہمیت اپنے سیاسی رابطوں کو دیتا ہے ۔ یورپی ملکوں کو اسلحہ فروخت کرنے کے ساتھ اسرائیل ان ملکوں اپنا سیاسی شریک بنا کر علاقائی سطح پر مسئلہ فلسطین سے متعلق ایسی لابنگ کا خواہاں ہے جسے استعمال کرتے ہوئے تل ابیب اپنی سفارتی دھاک بٹھا سکے ۔جاری جنگ کا دوسرا فائدہ اسرائیل کو روس، یوکرین اور یورپ سے یہودیوں کی اسرائیل ‘ہجرت’ کی شکل میں حاصل ہو رہا ہے ۔ صہیونی ریاست آبادی کے معاملے کو اپنی سلامتی کے لیے مقدم جانتی ہے ۔ قومی سلامتی کا منترا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل آبادیاتی اعداد وشمار کو ہمیشہ بطور ڈھال استعمال کرتا چلا آیا ہے ۔
اس مقصد کے لیے اسرائیل نے قوانین کا ایک ایسا مجموعہ متعارف کرایا ہے کہ جن سے صیہونی ریاست کی یہودی شناخت برقرار رکھنے میں مدد لی جا سکے ۔ ان میں نمایاں قانون وطن واپسی، شہریت کا قانون اور نیشنل سٹیٹ لا شامل ہیں۔ اسرائیل اپنے سخت ویزہ قوانین کے ذریعے بھی آبادی کے تناسب کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے کوشاں ہے ۔ اس کی پاپولیشن اور امیگریشن اتھارٹی اور سکیورٹی سروسز کے محکمے اس ضمن میں ہراول دستے کا کام کرتے ہیں۔
اسرائیل مغربی کنارے میں عالمی اداروں کی مذمت کے باوجود نسلی امتیاز کی مظہر طویل دیوار بھی بنا چکا ہے ۔ اسرائیلی عدالت بجائے خود اس دیوار کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے ۔صیہونی ریاست دنیا بھر میں مقیم یہودی کیمونٹی سے اپنے رابطوں کو تقویت دینے میں ید طولیٰ رکھتی ہے تاکہ انہیں اپنے ہاں آسودہ حال زندگی کے خواب دکھا کر ان کے گلے میں اسرائیلی شہریت کا طوق ڈال سکے ۔اس مقصد کے حصول کی خاطر اسرائیل میں سکونت اختیار کرنے والوں کے لیے مخصوص وزارت ہمہ وقت یہود نواز پالیسیوں کے ذریعے اپنے مقبوضہ علاقوں میں یورپی ملکوں سے آئے روز نئے یہودیوں کی آبادی کاری میں سہولت کار کر فریضہ ادا کر رہی ہے ۔ جیوش ایجنسی نامی ادارہ بھی صہیونی ریاست کے انہی لانگ ٹرم منصوبوں کو آخری شکل دینے میں مددگار ہوتا ہے ۔اسرائیل کے نقطہ نظر سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کا آبادیاتی تناسب انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اسرائیل نے تمام اہم امن معاہدوں میں اس نقطے کو ہمیشہ بارگینگ چپ کے طور پر استعمال کیا ہے ۔
معاہدہ اوسلو کے وقت بھی فلسطینیوں کا حق وطن واپسی تسلیم نہیں کیا گیا تاکہ اسرائیل میں بسنے والے یہودی اقلیت نہ بن جائیں۔ اسرائیل نے آج تک اسی وجہ سے اپنی سرحدوں کا تعین نہیں کیا۔مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ روس کا یوکرین پر حملہ اسرائیل کے طویل المدتی منصوبوں کے لیے انتہائی مفید پیش رفت ثابت ہو رہا ہے ۔ عرب وعجم کے سفارتی کینوس پر اسرائیل کی آئے روز ہونے والی آؤ بھگت سے اس کے توسیع پسندانہ عزائم کو کامیاب بنانے میں مدد مل رہی ہے ۔۔۔ اس پر یورپ سمیت روس اور ’اپنے پرائے ‘ سب ہی خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔